آئرلینڈ یاترا 25

ہم نے جنوری کے مہینے میں اس امید کے ساتھ زیادہ گھومنے پھیرنے سے گریز کیا تھا کہ فروری میں موسم گرم پڑ جائے گا اور ہم خوب چکر ماریں گے لیکن ہماری امید بر نہیں لائی۔ فروری جنوری سے کئی گنا سرد ثابت ہوا۔ بارش اور تیز ہواؤں نے زیادہ دنوں میں ہمیں گھر کے اندر مقید رکھا۔ جب باہر نکلے بھی تو لال چہروں اور بہتی ناک لے کر واپس آئے۔ 
ڈبلن کی ایک مشہور سیرگاہ ابھی تک ہم سے رہ گئی تھی۔ ڈاکٹر سرنگ اور کریم ہمیں ترغیب دیتے رہے کہ وکلو Wicklow دیکھے بغیر واپس جائیں گے تو پچھتاوا ہوگا۔ آخر ہم نے یکم مارچ کو وکلو کی سیر کو نکلے۔ وکلو ڈبلن کے جنوب مشرق میں ایک خوبصورت کاؤنٹی ہے جہاں بہت سارے سیاحتی مقامات ہیں۔ ہماری آج کی سیر پہاڑی وادیوں کی تھی۔
ان سیر گاہوں کی سیر باقاعدہ پروگرام کے مطابق کرنا تھی۔ ایک دن پہلے آن لائن سیٹ بکنگ کرنے کے بعد ٹور کمپنی ڈربی او گل Darby O Gill کی کوچ میں دوسرے سیاحوں کے ساتھ ڈرائیور کم گائڈ کی معیت میں ہم صبح سوا دس بجے ڈبلن شہر کے او کونیل بس سٹاپ پر بس میں سوار ہوئے۔ ہمارے ساتھ ہندوستانی، افریقائی، یوروپی، کوریائی اور امریکن سیاحوں نے کوچ میں رنگ و نسل کی گوناگونی کی رونق کا سامان مہیا کیا۔ میں اور بیگم نے ڈرائیور کے پیچھے سیٹ پکڑ لی۔ جسے بعد میں بدل ڈالی جب ڈرائیور کے جسم سے اٹھنے والی  سگریٹ  کی بو نے ناک میں دم کردیا۔ہمارے برابر میں ایک کوریائی موٹی دوشیزہ براجمان ہوئی۔ اس طرح کوئی 9 سواری سوار ہونے کے بعد گاڑی چل پڑی۔ صاحب کریم نے یہاں تک ہماری رہنمائی کی اور گھر واپس ہوا۔ اس کے بعد ہم ( من و بیگم) کو اپنے مشاہدات اور کوچ ڈرائیور کی گفتگو پر اکتفا کرنا تھا۔ ڈبلن کی نواح میں تین جوان امریکی لڑکیاں شامل کارواں ہوکر سیاحوں کی ٹولی کی دلکشی میں رنگ بھر دیا۔ ڈبلن شہر سے نکلنے کے بعد ہم دیہی علاقوں میں سے گزرے۔ کہیں سبز میدان تو کہیں گھنے جنگل اور کہیں کہیں کاشتکاروں کے بکھرے مکانات اور مویشی خانے نظر آتے گئے۔ بھیڑوں کے ریوڑ کے ریوڑ گھاس کے میدانوں میں محو خورش تھے۔ کوئی گھنٹہ بھر سفر کرنے کے بعد ہم ایک وادی میں داخل ہوئے جو گلینکری Glencree کہلاتی ہے۔ آئرش زبان میں گلینکری کا مطلب "ہلتا دلدل" کے ہے۔ یہاں کی زمین کا زیادہ حصہ دھنس/دلدلی ہے جو جنگلوں اور نباتات کی ٹوٹ پھوٹ اور گلنے سڑنے کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔  یہ  وادی 1200 فٹ کی بلندی پر پہاڑیوں میں گھری چھوٹی بستی ہے۔ ہمارا رہنما اپنے آئرش لہجے میں ہمیں بتائے جا رہا تھا جس کا بیس پچیس فیصد سمجھ میں آرہا تھا۔ یہ جس پہاڑی راستے پر ہمیں لے کےجا رہا تھا یہ سڑک انیسویں صدی کے اوائل میں انگریزوں نے بنوائی تھی تاکہ آئرش باغیوں پر قابو پا سکیں جو ان پہاڑوں میں چھپ کر گوریلا جنگ لڑی رہے تھے۔ گلینکیری کی وادی میں سڑک کےکنارے ایک پرانی عمارت کے اندر گاڑی روک دی  اور ہمیں پندرہ بیس منٹ اس تاریخی عمارت کو دیکھنے اور کیفی ٹیریا میں کچھ کھا پینے کا موقع دیا۔ 
یہ عمارت گلینکری سنٹر کہلاتی ہے۔ سب سے پہلے یہاں برطانوی فوج کے لیے فوجی بیرک بنے تھے۔ آئرلینڈ میں امن قائم ہونے کے بعد فوج یہاں سے ہٹائی گئی اور  1859 میں اسے نوعمر مجرموں کے لیے ہوسٹل اور اصلاحی سکول میں بدل دیا گیا۔ 1940 تک یہ نوعمر مجرموں کا اصلاحی سکول رہا جسے ایک رومن کیتھولک مذہبی ادارہ چلا رہا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں یہ عمارت جرمن جنگی قیدیوں کی جیل کے طور استعمال ہوئی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران 1939 سے 1945 تک جب آئرلینڈ جنگ میں غیر جانبدار تھا تو جرمن ائرفورس کے ان پائلٹوں کو یہاں رکھا گیا تھا جن کے جہاز یہاں حادثے کا شکار ہوئے تھے۔ ان کے ساتھ وہ جاسوس بھی شامل تھے جو یہاں برطانویوں کے خلاف جاسوسی کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ 1946 میں جرمن بچوں کو یہاں رکھا گیا جو جنگ کے نتیجے میں یتیم یا بے گھر ہوگئے تھے۔ جرمن فوجیوں کا قبرستان بھی اس کے ساتھ موجود ہے جسےائرلینڈحکومت نے ان جرمن فوجیوں کو دفنانے کے لیے وقف کیا تھا جو آئرلینڈ میں مر گئے تھے۔   1974 میں شمالی اور جنوبی آئرلینڈ کے درمیان شدید کشیدگی دور کرنے اور امن و امان قائم کرنے کی خاطر بننے والی غیر سرکاری تنظیم گلینکری سنٹر فار پیس اینڈ ری کنسلئیشن Glancree Center for Peace and Reconciliation اس عمارت میں قائم ہوئی جس نے شمالی اور جنوبی آئرلینڈ اور برطانیہ کے درمیان صلح و صفائی کے ساتھ تنازعات حل کرکے امن قائم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اب بھی یہ سنٹر یہاں کام کر رہا ہے۔ یہاں کیفی ٹیریا بھی ہے۔
یہاں سے ہم مزید چڑھائی چڑھتے ہوئے اس وادی کے اوپر پہنچ گئے جہاں سے نیچے وادی کا بہترین نظارہ ممکن تھا۔ موسم کی اچانک تبدیلی اور بادلوں اور طوفانی برف باری نے ہمیں اس کا لطف اٹھانے نہیں دیا اور نہ صاف فوٹو گرافی ہوسکی۔ یہاں سے کوئی چالیس منٹ سفر کے دوران ہم ایک سطح مرتفع نما غیر آباد سے گزرے جہاں جگہہ جگہہ جوھڑ اور نیچے بیھٹی اور ٹوٹی پھوٹی زمین لمبی اونچی گھاس سے بھری تھی۔ گھاس مردہ تھی۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا کہ لوگ انکی کٹائی کیوں نہیں کرتے؟ کہنے لگا یہ چراگاہ عوام کی شاملات ہے جہاں گرمیوں میں اردگرد کے زمیندار اپنی بھیڑیں چرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتے ہیں۔ یہ بھی بتایا کہ ہر کوئی اپنی بھیڑوں کے جسم کے خاص حصوں کو مخصوص رنگ سے رنگتے ہیں تاکہ پہچاننے میں دقت نہ ہو۔ میں نے کہا ،" ایسا ہمارے ہاں بھی کرتے ہیں جب بھیڑ بکریاں گرمائی چراگاہوں ( کھوار میں غاری بولتے ہیں) کیطرف لے جائے جاتی ہیں"۔ ( جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی