آئرلینڈ یاترا۔۔۔22

 واٹر فورڈ شہر کے وائکنگ ٹرائنگل اندر قائم  کیتھڈرل آف دی ہولی ٹرینیٹی کرائسٹ چرچ واٹرفورڈ بھی ایک تاریخی یادگار ہے۔ سب سے پہلے گیارھویں صدی میں یہاں چرچ  تعمیر ہوا تھا۔ 1170  میں پمبروک کے دوسرے ارل ڈی کلیر ( سٹرانگ بو ) اور بادشاہ لینسٹر کی بیٹی  ایفا کی شادی کی تقریب یہیں پر منعقد ہوئی تھی۔ 1210 میں پرانی عمارت کی جگہ گوتھک کیتھولک ڈیزائین کا کلیسا بنا۔ انگلستان کی اصلاح مذہب کی مہم کے دوران یہ کیتھڈرل بھی ان کا نشانہ بنا تھا۔ کرمویل کی فوج نےاس کی بڑی بے احترامی کی تھی۔موجودہ عمارت 1773 میں شروع ہوکر  1779 میں تکمیل کو پہنچی تھی۔ اس کا آرکیٹیکٹ جان رابرٹسن تھا۔ پرانی عمارت کو گراتے وقت بہت سے نوادرات برآمد ہوئے تھے جو میوزیم آف ٹریژرز واٹرفورڈ اور نیشنل میوزیم آف آئرلینڈ میں محفوظ ہیں۔
اس کیتھڈرل کو آثار قدیمہ کے مؤرخ Mark Girauod نےآئرلینڈ میں اٹھارہویں صدی کی بہترین مسیحی عمارت قرار دیا ہے۔ اس کیتھڈرل کے قریب ہی میڈیول میوزیم کی عمارت ہے۔ عمارت نئی ہے البتہ اسکے تہ خانے میں پرانے شہر کی دیوار اور ٹاور کا ایک حصہ محفوظ ہے۔ میوزیم کے اندر  وسطی دور کے واٹر فورڈ کی تصویری اور تحریری تاریخ دیواروں پر آویزاں ہے۔ یہاں کے اہم نوادرات میں پندرھویں صدی کے  سونے کی تاروں سے بنائے گئے اسقف کے ملبوسات شامل ہیں جو کرائسٹ چرچ کی تعمیر نو کے موقعے پر پرانے چرچ کی خفیہ جگہوں سے ملے تھے۔  یہ قابل دید پوشاک ہیں۔ کافی تاریک کمرے میں رکھے گئے ہیں اور فوٹو گرافی کے لیے فلش کا استعمال منع ہے اس لیے ان کی صاف تصویریں نہ بن سکیں۔ 

یہاں ایک اور قابل دید عمارت بشپ پیلس کہلاتی ہے۔ یہ بھی میوزیم ہے۔ اس کے اندر 1700 سے لےکر 1970 تک کی واٹر فورڈ کی تاریخ اور نوادرات محفوظ کیےگئےہیں۔ جارجئین ارکٹکچر کی یہ عمارت 1741 مین بنی تھی۔ یہاں تیرھویں صدی کی Choristes ہال اور پندرھویں صدی کی وائین والٹ موجود ہیں۔

1241 کے فرنچ فرنسسکین چرچ  کے کھنڈرات بھی پرانی تاریخ کی یادگار ہیں۔ یہ کافی بڑی عمارت ہے جس کی دیواریں اور مینار آج بھی سالم حالت میں ہیں۔ اس کی تعمیر اینگلو نارمن نائٹ سر ہگ پارسل نے کرائی تھی۔ یہ آئرلینڈ میں سب سے پرانا فرنسسکین چرچ تھا۔  1394 میں انگلستان کے شاہ رچرڈ دوم  نے یہاں قیام کیا تھا جب وہ وکلو کے پہاڑوں میں مقیم گائلک آئرش پر حملےکی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔  1541 میں ہنری ہشتم نے اس چرچ کے اثاثے بیچ ڈالے اور یہ چرچ کھنڈرات میں بدل گیا۔
چرچ کے دروازے پر آئرش فرنسسکین پادری اور مورخ لیوک ویڈنگ کا مجسمہ استادہ ہے۔ اس چرچ کے اندراس کے بانی سر ہگ پارسل، لارڈ رچرڈپوئر (1607) اور اسکی بیوی کیتھرین ڈی بیری، چیف جسٹس سر نکولاس لسولش(1625) اور کلمیڈن کے لارڈ نکولاس پاور(1635) کی قبریں بھی موجود ہیں۔
واٹر فورڈ شہر کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ یہاں1783 میں بلور بنانے کا کارخانہ لگا تھا۔ آج واٹر فورڈ مال پر قائم واٹرفورڈ کرسٹل کی عمارت کے اندر شو کیسوں میں  دنیا کا سب سے بڑا انواع و اقسام کے بلوری سامان کا ذخیرہ موجود ہے۔ اس کارخانے میں سالانہ 750 ٹن بلور پگھلایا جاتا ہے۔

آئرلینڈ کا یہ پرانا شہر کسی بھی سیاح کےپاوں میں زنجیر بن سکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس وقت ہو اور اسے دیکھنا شروع کردے۔ اس کی بندرگاہ کا نظارہ ہی کئی کئی گھنٹوں پر محیط ہوسکتا ہے۔ ہمارے پاس وقت کم تھا اس لیے واٹر فورڈ کے وائکنگ ٹرائنگل کے اندر موجود عمارتیں اور گلیاں دیکھ پائیں۔ ہاں! یہ بتانا بھول گیا کہ شہر کے مال پر قائم ایک فاسٹ فوڈ کی دکان میں کافی پینے کی غرض سے گئے تو موریشس کی ایک کالی کلوٹی لڑکی نے ہمیں ویلکم کیا۔ کافی کی تیاری کے دوران اپنا تعارف بھی کرایا۔ ہم سے بھی ہوچھا۔ جب میں نے مذہب کا پوچھا تو بتایا کہ ہندو دھرم سے تعلق رکھتی تھی۔ پھر اپنے دونوں ہاتھ اگےکرکے ہمیں دکھایا۔ دائیں ہاتھ کی بڑی انگلی کی پشت پر ترشول کا نقشہ تھا ۔ اسے ہمیں دکھاتے ہوا کہا" یہ ہندو ہے" اور بائیں ہاتھ پر چاند تارہ کا نقشہ دکھاتے ہوئے کہنے لگی، "یہ مسلمان ہے" ہم اپنی ہنسی نہ روک سکے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ