آئرلینڈ یاترا۔۔۔21

آئرلینڈ یاترا ۔۔۔21 

آئرلینڈ کا قدیم ترین شہر

آئرلینڈ کے جنوب مشرق میں واقع صوبہ منسٹر Munster کے شہر واٹر فورڈ Waterford کو آئرلینڈ کا سب سے قدیم شہر ہونے کا فخر حاصل ہے۔ اسے وائکنگ بادشاہ Ottir Karla  نے 914 ع میں آباد کیا تھا۔ ویسے وائکنگز نے 853 عیسوی میں اس علاقے پر قبضہ کرکے یہاں رہائش اختیار کر رکھی تھیں۔ بحیثیت انسانی بستی اس کی عمر دس ہزار سال سے زیادہ بتائی جاتی یے۔ اب تک شمالی آئرلینڈ کے ماؤنٹ سینڈل کو قدیم ترین انسانی بستی کہا جاتا رہا ہے۔ اب واٹر فورڈ سے برآمد آثار قدیمہ کا مطالعہ اس سابقہ مفروضے کو غلط ثابت کر رہا ہے۔ بہر حال مزید تلاش و تحقیق جاری ہے۔ 
کھنڈرات دیکھنے کا شوق مجھے واٹر فورڈ کی طرف گھسیٹا۔ دخترم ڈاکٹر زبیدہ سرنگ میرے ساتھ میری رہنمائی کے لیے چل پڑی۔ ڈبلن سے بذریعہ بس دو گھنٹے لگے۔ یہاں پبلک ٹرانسپورٹ انتہائی آرام دہ ہے۔ گاڑی کے اندر رفع حاجات کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔ اس لیے مسافر کو کسی قسم کا الجھن نہیں ہوتا۔ اگرچہ میرے دوست عطاء الرحمن رومی سوروھتیک نے پیشکش کی تھی کہ وہ یہاں اپنے دوستوں سے کہہ کر گاڑی کا بندوبست کرے گا۔ لیکن میں نے منع کیا کیونکہ مجھے یہاں کام کرنے والوں کی مصروف ترین زندگی کا علم تھا۔ لہذا کسی کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔ جہاں آپ کو عوامی ذرائع آمدورفت میسر ہوں اور وقت کی کمی نہ ہو تو وہاں پر کار کی ضرورت نہیں ہوتی۔
واٹر فورڈ کے راستے میں ایک قصبہ آتا ہے جس کا نام کلکینی یے۔ یہاں بھی آثار قدیمہ کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ یہ قصبہ دریائے نور Nore کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ یہاں 1173 عیسوی کا قلعہ جسے رچرڈڈی کلیر المعروف سٹرانگ بو، ایرل دوم آف پمبروک نے تعمیر کرایا تھا۔ کلکینی میں واقع سینٹ کینائس کتھیڈرل آئر لینڈ کا دوسرا بڑا گرجا یے جس کی تعمیر 1202 میں ہوئی تھی۔

واٹرفورڈ شہر چھوٹا سا ہے اور دریائے Suir ( تلفظ shure ہے) کے کنارے واٹر فورڈ بندرگاہ کے اوپر واقع ہے۔
اس کی آبادی 54 ہزار ہے۔ 1167 میں لینسٹر کے معزول بادشاہ Diarmait Mac Murchada نے اسے وائکگز سے واپس حاصل کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ پھر 1170 میں رچرڈ ڈی کلیر المعروف سٹرانگ بو جو پمبورک کے دوسرے ارل تھے کی سربراہی میں نارمن جنگجووں کی مدد سے شہر پر قبضہ کیا۔ 1171 میں شاہ انگلستان ہنری دوہم نارمن فتوحات کو آگے بڑھانے کیلیے یہاں پہنچے۔ اس نے واٹرفورڈ اور اس کے بعد ڈبلن کو شاہی شہر اعلان کیا۔ ڈبلن کو دارلحکومت بھی قرار دیا۔
یہ شہر اصلاح مذہب کی تحریک کے بعد بھی کیتھولک ہی رہا اور کلکنی کنفیڈریشن میں شامل رہا جہاں  1642 سے 1649 تک خودمختار حکومت رہی۔ 1650 میں کرمویل کے داماد نے اس پر قبضہ کیا۔ 1922 تک گریٹ بریٹن شاہنشاہیت کے زیر نگین رہا۔ اس کے بعد آئرش ریپبلک کا حصہ بنا۔
شہر میں وائکنگ دور کا گول مینار آج تک نہ صرف زندہ ہے بلکہ زیر استعمال بھی ہے۔ اس کا نام رگنالڈ ٹاور ہے۔غالبا وائکنگ بادشاہوں میں کسی کے نام سے منسوب ہے۔ مینار کی لمبائی 54 فٹ اور چوڑائی 42 فٹ 6انچ ہے۔ تیرھویں اور چودھویں صدی میں اس کی مرمت ہوئی تھی۔ یہ ان سترہ میناروں میں سے ایک ہےجو شہر کے اردگرد بنے تھے۔  اس مینار نے ایک ہزار سالوں کی تاریخ کا مشاہدہ کیا ہے۔ اسی مقام پر آئرلینڈ کی تاریخ کے مشہور کردار رچرڈ ڈی کلیر اور شاہ لینسٹر میک مورو کی بیٹی سیتا کی شادی کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔ 1210 میں شاہ انگلستان  کنگ جان نے اس کا دورہ کیا تھا اور اسکی مرمت کرنے اور یہاں نئے سکے ڈھالنے کا حکم دیا تھا۔ 1394 اور 1399 میں رچرڈ دوم نے اس مینار کو بطور اسلحہ گودام استعمال کیا تھا۔ جب وہ 27 جولائی 1399 کو انگلستان اور آئرلینڈ کے بادشاہ کی حیثیت سے اس مینار سے رخصت ہوکر انگلینڈ پہنچا تو ہنری چہارم نے اسے گرفتار کرکے اسے تخت سے دست بردار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ 1463 میں جب ائرش پارلیمنٹ کا اجلاس واٹرفورڈ شہر میں ہو رہا تھا تو پارلیمنٹ کے حکم سے یہاں سکے ڈھالنے کا کام شروع ہوا تھا ۔ اس سکےکی ایک طرف یہ الفاظ کندہ تھے ،"Civitas Waterford" 
1495 میں اس مینار پر نصب توپوں نے پرکن واربیک کے حملے کے خلاف شہر کا کامیاب دفاع کیا تھا اور اس کے ایک بحری جہاز کو ڈبو دیا تھا۔ ہنری ہفتم نے اس کامیابی پر شہر کو اس موٹو سے نوازا تھا، 
" Waterford remains unconquered City"
سترھویں اور اٹھارویں صدیوں کے دوران یہ مینار اسلحہ اسٹور رہا۔ انیسویں صدی کے اوائل میں قیدخانہ کے طور پر استعمال ہوا جب کہ موجودہ وقت میں یہ وائکنگ میوزیم ہے۔وائکنگ دور کی لمبی بحری کشتی کی ہوبہو نقل اس ٹاور کے ساتھ نمائش کےلیے رکھی گئی ہے۔
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ