آئرلینڈ یاتر۔۔۔ا19

گالوے کا شہر
ہم نے گالوے جانے کا پروگرام خاص کرکے اس وجہ سے بنایا کہ میری بیٹی ڈاکٹر زبیدہ سرنگ نے یہاں گالوے یونیورسٹی ہسپتال میں ایک سال اپنے سپشلائزیشن کے لیے ریزیڈنسی کرتی رہی تھی اور اس کا شریک حیات صاحب کریم خان نیشنل یونیورسٹی گالوے سے ڈگری حاصل کی تھی۔ لہذا اس شہر کا میرے خاندان پر احسان تھا۔ ان اداروں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کی آرزو بھی تھی۔ اس لیے بس میں سوار ہوکر صاحب کریم خان اور ہادی غوث کی رہنمائی میں میں اور بیگم صاحبہ نے گالوے کا سفر کیا۔ ڈھائی گھنٹے کا یہ سفر بہت خوشگوار رہا۔ سرسبزو شاداب علاقوں سےگزرے۔ انسانی آبادی کم نظر آئی جب کہ کھیت، جنگلات اور لہلہاتی گھاس کے وسیع و عریض میدانوں اور ٹیلوں کی تو کوئی حد ہی نہیں تھی۔ اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آئرلینڈ میں زمین کی کمی نہیں البتہ آبادی تھوڑی ہے۔
ڈبلن سے ڈھائی گھنٹے کی مسافت پر مشرق کی جانب بحر اوقیانوس کے مغربی کنارے پر واقع چھوٹا خوبصورت شہر گالوے آئرلینڈ کا چھٹا بڑا شہر ہے اور صوبہ کونٹ کا واحد مرکزی مقام ہے۔ یہ شہر دریائے کوریب Corrib کے کنارے کوریب جھیل اور  گالوے خلیج  کے درمیان واقع ہے۔ اس کی آبادی 80 ہزار ہے۔ اس کا رقبہ 54 مربع کلومیٹر اور سطح سمندر سے اونچائی25 میٹر ہے۔ 1484 میں اسے شہر کی حیثیت دی گئی تھی۔ یہ شہر قبائل بھی کہلاتا ہے۔
1124 میں شاہ کونٹ یا کونخٹ نے یہاں ایک قلعہ تعمیر کرایا تھا جس کے اردگرد مکانات بنتے گئے اور یہ شہر کی صورت اختیار کرلی۔ 
تاریخ یورپ و فرد درسطی دور میں یہ شہر سپین اور فرانس کے ساتھ تجارت کی مرکزی بندرگاہ تھا۔ کہتے ہیں کہ 1477 میں کرسٹوفر کولمبس آئس لینڈ اور جزائر فارو جاتے ہوئے گالوے میں رکا تھا۔ اپنے اس سفر کے سات  آٹھ سال بعد اس نے اپنی Copy of Imago Mundi کےحاشیے میں نوٹ کیا تھا۔ کہ " کیتھی کے لوگ مغرب سے سے آئے ہیں۔اس کے ہم نے کئی اشارے پائے ہیں۔ خاص کرکے گالوے میں غیر معمولی شکل و صورت کے ایک مرد اور عورت درخت کے دو تنوں یا تختوں  پر سوار ہوکر یہاں اترے تھے۔ وہ یا تو امریکہ سے آئے تھے یا کینیڈا سے"
سترھویں صدی کے وسط میں کرمویل کی فوجوں نے نو مہینے کے محاصرے کے بعد اس شہر پر قبضہ کیا تھا۔ 1691 میں ویلیم سوم  کے اتحادیوں نے اسے برباد کردیا۔ بچی کچھی کسر آلو کی قحط نے نکالدی۔ آئرلینڈ کی آزادی کے بعد یہ شہر پھر سے آباد ہوا۔ آجکل یہ آئرلینڈ کا ثقافتی مرکز ہے۔ یکم دسمبر 2014 کو ڈائریکٹر جنرل یونیسکو نے اسے UNESCO City of Film قرار دیا تھا۔

                                                     اٹھارویں صدی کا    Eyre Square  گالوے شہر کا مقبول جائے ملن اور مصروف ترین مقام ہے جس کے چاروں طرف دکانیں، روایتی آئرش سرائے جن میں فوک موسیقی پیش کی جاتی ہے۔ اس کی پیچ کھاتی وسطی دور کی دیواروں کوزندہ رکھنے والے لاطینی کوارٹر کی گلیوں میں پتھروں کی بنی کیفی شاپس، ملبوسات کی دکانیں اور آرٹس گلیریز ہیں۔  ۔ قریب ہی ایک دلکش پارک بھی ہے جہاں کے سستانے اور بچوں کی تفریح کا بھی مکمل انتظام موجود ہے۔ 
                                                     گالوے کی نیشنل یونیورسٹی آف آئرلینڈ تعلم و تحقیق کا بہت بڑا ادراہ ہے۔ دریائے کوریب کے کنارے واقع یہ درسگاہ 1845 میں کوین کالج گالوے کے نام سے وجود میں آئی تھی۔ بعد میں اس کا نام بدل کرکےنشنل یونیورسٹی آف آئرلینڈ کانام دیا گیا۔ اس یونیورسٹی میں دی کالج آف ارٹس، دی کالج آف بزنس،پبلک پالیسی اینڈ لاء، دی کالج آف سائنس اور دی کالج آف انجینئرنگ قائم ہیں۔ یہاں طلبہ کی تعداد کم و بیش 17 ہزار ہے۔ میرے برخوردار صاحب کریم خان نے یہاں سے Adult Learning and Development میں ماسٹر کی ڈگری فرسٹ ڈویژن اور پوزیشن میں حاصل کی ہے۔
        یونیورسٹی کے مین گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی دو خواتین اور ایک مرد کی تصویریں اوران کے ساتھ  مختصر تعارفی تحریریں اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ایک کا نام ایمیلی اینڈرسن ہے۔ اس خاتون نے کوینز کالج گالوے سے سے 1911 میں جدید زبانوں میں فرسٹ کلاس میں بی اے آنرز کا امتحان پاس کیا تھا۔ 1917 میں یہیں پر جرمن زبان کی پہلی پروفیسر مقرر ہوئی تھی۔ 1920 میں یہ ان خواتین میں سے ایک تھی جنہیں برطانوی وزارت خارجہ میں ملازمت کی پیشکش ہوئی تھی۔ اس سے پہلے خواتین انتظامی عہدوں پر نہیں آسکتی تھیں۔ اس نے پہلی جنگ عظیم میں مشرق وسطیٰ میں بہترین خدمات کے اعتراف میں او بی ای کا اعزاز پایا. ان کو مشہور زمانہ کلاسیکل موسیقار اور گیت کار Mozar and Beethoven  پر لکھی گئی تین جلدوں پر مشتمل کتاب پر آرڈر آف میرٹ کا ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ وہ 1962 میں لندن میں وفات پاگئیں اور اپنی آمدنی کی ایک خطیر رقم  بھلائی کے کام کے لیے رائیل فلہارمونیک سوسائٹی کو دے دی جس میں سے ہر سال نوجوان موسیقاروں کو انعام دیا جاتا ہے۔ گالوے یونیورسٹی بھی ہر سال ان کی یاد میں موسیقی کا پروگرام منعقد کرتی ہے۔
        (جاری ہے)
                                       

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی