ٹُٹیو قہرو مٹُٹیو سورا نیزک

چترال کے کھوار اہل زبان اس ضرب المثل کا مطلب جانتے ہیں۔ غیر چترالی اس مختصر تحریر کو پڑھنے کے بعد جان پائیں گے کہ کہانی کیا ہے۔
میں اور میری اہلیہ آئرلینڈ میں زیر تربیت ہماری بیٹی  اور اس کی فیملی کی دعوت پر ڈھائی مہینے ان کے ساتھ بڑا خوشگوار وقت گزارنے کے بعد جب قطر ائیرویز کے ذریعے 6 مارچ کی رات دوبجے اسلام آباد انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر اترے تو کرونا وائرس کی دہشت دنیا میں پھیل چکی تھی اور ملک آنے والے مسافروں کی باقاعدہ سکریننگ شروع ہو چکا تھا۔ ہماری بھی سکریننگ کی گئی اور تحریری انڈر ٹیکنگ لی گئی کہ ہم نے گزشتہ اتنے عرصے کے دوران چین، ایران اور اٹلی کا سفر نہیں کیا ہے اور ہم میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی کوئی علامت موجود نہیں ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب آئرلینڈ میں کوئی تین مریضوں میں کرونا وائرس کی تشخیص ہوچکی تھی۔ پاکستان میں کوئی نو دس افراد زیر علاج تھے۔ چین، ایران اور اٹلی سب سے بڑے متاثر تھے اور ہزاروں کی تعداد میں اموات ہوچکی تھیں۔

میڈیا کے ذریعے بین الاقوامی صحت کی تنظیم، ملک کا محکمہ صحت اور انفرادی ماہرین صحت نے جن احتیاطی تدابیر اپنانے کی ہدایتیں  دی تھیں اور دے رہے تھے تو ہم نے بھی ایک صاحب عقل و فہم سماجی کارکن ہونے کے ناتے ان پر سو فیصد عمل درآمد کو نہ صرف یقینی بنایا بلکہ اپنی بساط کے مطابق کرونا کے خلاف لڑائی میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کر دیا۔ تفصیل دینے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہا۔ سب سے پہلے میری بیٹی ڈاکٹر زہرہ ولی خان ایل ایم او ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی جو کرونا وائرس سے بچنے سےمتعلق شارٹ ٹریننگ کے لیے پشاور آئی تھی کی موجودگی میں پشاور میں اپنے آپ کو 17 مارچ سے ISOLATE کیا۔ تعلیمی ادارے بند ہونے کی وجہ سے میری اپنی بچی، بھتیجیاں اور بھانجیاں بھی میری رہائشگاہ جمع ہوگئیں۔ آمدورفت پر پابندی لگ گئی تو بچے اپنے گھروں کو نہ لوٹ سکے۔  ائسولیشن کے دوران اللہ کے فضل وکرم سے ہم میں سے کوئی فرد بھی کرونا سے متاثر نہیں ہوا۔
11 اپریل کو اپنے ضلعی انتظامیہ سے باقاعدہ این او سی لینے کے بعد ہم نے ڈاکٹر زہرہ ولی خان کی ہی نگرانی میں پشاور کے ائسولیےشن گھر سے چترال کی طرف روانہ ہوئے۔ سخاکوٹ میں ہمیں پہلی ناکہ بندی کا سامنا کرنا پڑا۔ چونکہ ہم دو گاڑیوں میں سوار تھے۔ پہلی گاڑی کی سواریوں کو اپنا سفر جاری رکھنے کی منظوری ملی جس میں ڈاکٹر زہرہ ولی خان کو ڈیوٹی پر موجود ایک صاحب نے  کہا کہ اپنی دوسری گاڑی کی سواریوں کی انٹری کروا کر  لے ایک ساتھ جائیں۔ ہماری دوسری گاڑی کوئی پندرہ منٹ تاخیر سے پہنچی۔ اس دوران ایک سپاہی ہمارے ڈرائیورکے پاس پہنچ کر اسے حکم سناتا ہے کہ " صاحب حکم دے رہے ہیں کہ تم اپنی گاڑی لے کر واپس جاو۔ یہ سن کر ڈاکٹر زہرہ ولی خان پھر سے ان کے پاس گئی۔ وہ صاحب اپنی جگہہ بیٹھے ہی رہے اور ڈاکٹر کو بھی اپنی سواریاں اور گاڑیاں واپس پشاور کی طرف موڑنے پر ضد کرتے ہوئے محسوس ہوا۔ ایک لیڈی ڈاکٹر جو کووڈ 19 کے خلاف براہ راست جنگ لڑی رہی ہے کو اپنے سامنے کھڑی  رکھ کر اپنے ماں باپ اور قریبی رشتوں کو باحفاظت گھر پہنچانے کے لیے قانونی اجازت کی درخواست مسترد کرنا اور ڈاکٹر کے ساتھ یہ غیر مناسب سلوک دیکھ کر مجھے بہت دکھ ہوا اور چند روز پہلے کے ڈاکٹروں کوسلوٹ مارنےکے ڈرامے کو یاد کیا جس کے بارے میں نے عرض کی تھی ک" کاش یہ احترام آگے بھی جاری رہ سکتا"
 اتنے میں ہماری دوسری گاڑی پہنچ گئی جو ایمبولینس تھی  اور جس میں ایک ماہ پہلے اوپن آپریشن سے   گزری ہوئی 73 سالہ خاتون ( میری بڑی بہن) اور زیر علاج ساٹھ سالہ میری چھوٹی بھابی اور انکے اٹنڈنس سوار تھے۔ ڈاکٹر زہرہ کو موقعے پر موجود مجسٹریٹ کو منا نے میں مزید پندرہ منٹ گزرگئے۔ مجبوراََ میں بھی سڑک کراس کرکے ان صاحب کے سامنے جا کھڑا ہوا اور کہا، " جناب! آپ ڈاکٹر کی بات اور ڈی سی اپرچترال کی این او سی نہیں ماں رہے شاید میری بات ماں جائیں کیونکہ میں ریٹائرڈ استاد ہوں۔ یہ سنتے ہی وہ جوان آفیسر کھڑا ہوگیا اور ہاتھ ناف کے اوپر باندھ لیا۔ میں نے پھر سے وہی کہانی سنائی جو ڈاکٹر سنا چکی تھیں۔ یعنی  ہم پشاور میں ایک ہی گھر میں گزشتہ 27 دنوں سے ائسولیشن میں تھے۔ اب اپنی بیٹی ڈاکٹر کی نگرانی میں پوری احتیاط کے ساتھ اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں اور یہ ضمانت بھی دیتے ہیں کہ اپنے گھروں میں پہنچ کر ائسولیٹ رہیں گے جب تک یہ وبا ختم نہیں ہوتی۔ اس آفیسر نے کہا، " میں ڈاکٹر کی بات نہیں مانتا البتہ استاد کی خاطر آپ کو جانے کی اجازت دیتا ہوں"۔
میں نے انہیں دعائیں دیں اور وہاں سے آگے کا سفر طے کرنے لگا۔ دل اس بات پر خوش تھا کہ اس "ملک ناپرسان" میں اب بھی استاد کا احترام کرنے والے افراد موجود ہیں"۔ اس کے ساتھ اس بات پر دل رنجیدہ تھا کہ موجودہ پریشان کن حالات میں جو مجاہدین  اس چھپی دشمن کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کر رہے ہیں ان کی اب بھی کوئی قدرو قیمت نہیں ہے۔ کل ایک دو ویڈیوز میں سکیوریٹی اہلکاروں کی طرف سے سفید اورال پوشوں کو جو سلوٹ ماری گئی تھی وہ محض ایک ڈھونگ تھا۔
مجھے معلوم تھا کہ ہزاروں چترالی چھپےچوری چترال لوٹ گئے تھے۔ دو دن پہلے  ساری احتیاطی اصولوں کو پائمال کرتے ہوئے اور دفعہ 144 کا جنازہ نکالتے ہوئے شاہد آفریدی کا استقبال اور امدادی اشیاء غریبوں میں تقسیم کرنے کی تقریبات دروش، چترال اور جنالی کوچ بونی میں انتظامیہ کی زیر سرپرستی منعقد کرائی گئی تھیں جن کے خلاف احتجاج میں راقم الحروف بھی شامل تھا اور اب بھی ہے۔ البتہ ہمارے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے معزز ممبران نے ڈی سی چترال اور کمشنر ملاکنڈ کے خلاف بیان بازی کی تھی اور سیم پی اے صاحب کی طرف سے جو تلخ اور غیر پارلیمانی زبان استعمال ہوئی تھی اسے ہم نے بھی انتہائی ناپسند کیا تھا بلکہ اس کی مذمت کی تھی کیونکہ گالی گلو انتہائی غیر مہذب حرکت ہے۔ ہمیں ایسا لگا کہ ہمارے نمائیندوں کی کڑوی زبان  کے بدلے میں ڈویژنل انتظامیہ سخاکوٹ  ناکہ بندی کے ذریعے  چترالیوں کی اپنے گھروں کیطرف لوٹنے کی راہ کو مسدود کرکے ان کو مشکلات میں ڈال کر اپنی بھڑاس نکال رہا ہے۔ ایک مقام پر اس کا اظہار بھی ہوا کہ چترال والوں نے ہمارے کمشنر کو برا بلا کہا ہے اس لیے نگرانی سخت کردی گئی ہے۔
ہم اہل چترال اپنے نمائندوں کی تلخ زبانی اور اسے سوشل میڈیا کے اوپر مشتہر کرنے کی بھی شدید مذمت کرتے ہیں اور انتظامیہ کے امتیازی سلوک کے ذریعے  چترالی باشندوں کو مشکلات میں ڈالنے کی بھی اتنی ہی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔
 جہاں تک اس لاک ڈاؤن کے دوران کرکٹرشاہد آفریدی کی امداد کا تعلق ہے اسے ہم سراہتے ہیں لیکن ان کو اپنی فیملی سمیت چترال میں گھومنے اور تقریبات منعقد کی اجازت دینا انتہائی احمقانہ حرکت تھی۔ کیا ہمارے ملک کے ان اساتذہ کرام، ڈاکٹروں، آرمی آفیسروں اور دوسرے خادمان وطن کو بھی آفریدی جتنا پروٹوکول ملنا چاہیے کہ نہیں جنہوں نےاس قوم کی خدمت میں اپنے بال سفید اور کمر خم کی ہیں؟ 
 دوسرا سوال یہ بھی ہےکہ آفریدی نے کونسا بڑا کارنامہ انجام دیا ہے پاکستان کے لیے جس کے لیے ان نازک حالات میں چترال میں جلسے اور محافل موسیقی منعقد کرانے کی ضرورت پڑی؟
   اور تیسرا سوال ایم پی اے چترال کی غیر پارلیمانی گفتار کا بدلہ اہل چترال سے لینے کا کیا جواز ہے؟

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی