آئرلینڈ یاترا۔۔۔14

آئرلینڈ یاترا۔۔۔14 
 ٹریم کیسل   Trim Castle
  ڈبلن شہر سے 46 کلومیٹر شمال میں صوبہ لینسٹر کے وسط میں واقع کاؤنٹی میتھMeath میں یہ نارمن قلعہ تھا۔ یہ دریائے بوین کے جنوب میں ایک ابھری زمین کے اوپر بنایا گیا تھا۔ جس کی بنیاد  1172 میں ہگ ڈی لیسی  لارڈ آف میتھ نے رکھی تھی جب ہنری دوم نے میتھ میں ایک دوسرا انتظامی لارڈشپ قائم کیا اور ڈی لیسی کو لارڈ مقرر کیا تھا۔ 1224 میں  ڈی لیسی اور اس کے بیٹے والٹر کی نگرانی میں اس قلعے کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔ یہ سب سے بڑا نارمن قلعہ تھا۔ 1314 عیسوی تک یہ ڈی لیسی خاندان کے قبضے میں رہا۔ اس کے بعد یہ مورٹیمرز فیملی کو ملا۔ آخری مورٹیمر ایڈمنڈ مورٹیمر، ارل پنجم کی موت کے بعد یہ ایڈمنڈ کی بہن این کے بیٹے رچرڈ آف یارک کے قبضے میں چلا گیا۔رچرڈ آف یارک 1460 میں ویکفیلڈ کی لڑائی میں مارا گیا۔ 1461 میں رچرڈ کا بیٹا ایڈورڈ چہارم بادشاہ بنا تو اس نے اس قلعے کوجرمین لینھ سنار کے حوالے کرکے آئرلینڈ میں اپنا نمائیندہ مقرر کیا۔ اسے میتھ، ڈبلن اور گالوے کے اندر قائم  قلعہ جات کی آمدنی کا انچارج مقرر کیا گیا۔ سولہویں صدی میں یہ قلعہ زوال پزیر ہوکر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ 1640 میں اس کی پھر سے مرمت ہوئی۔ 1649 میں اولیور کرمویل کی فوج کے قبضے میں آیا۔ 1680 میں اسے ویلسلے خاندان کو دیا گیا۔ اس کے بعد ڈنسینی پلنکیٹس اس کے مالک بنے۔ آخرکار 1993 میں لارڈ ڈینسنی نے اسے آئرلینڈ سرکار کو فروخت کر ڈالا جب یہ کھنڈرات میں بدل چکا تھا۔ آئرلینڈ کے محکمہ تعمیرات نے اس کی جزوی بحالی کے بعد  سن 2000 میں عوام کے لیے کھول دیا۔
یہ قلعہ ایک مضبوط چاردیواری کے اندر قائم تھا۔ اس قدیم چاردیواری کا کافی بڑا حصہ اس وقت موجود ہے۔ رہائشی محل اس چاردیواری کے اندر کھنڈر کی حالت میں کھڑا ہے اور چار منزلوں پر مشتمل ہے۔ اندر جانے کا خیال ترک کیا کیونکہ یہ بھوت گھر لگ رہا تھا اور خطرناک بھی۔ اس کی چاردیواری کے اندر جگہہ جگہہ گول مینار تھے جن میں  دو تین آج بھی زندہ ہیں۔ دریائے نویں کی دوسری طرف اس زمانے کے ایک چرچ کا مینار اب تک زندہ حالت میں ہے۔ اسے دیکھنے جب ہم پل عبور کرکے دریائے شمال کی طرف نکلے تو یہاں ہمارے چترال کی ایک مشہور جھاڑی پر نظر پڑی جسے ہم کھوار میں "اݯھو" کہتے ہیں۔ اردو میں غالباً اچھو ہے اور انگریز لوگ اسے بلیک بیری پکارتے ہیں۔ یہ دریائے بوین کے کنارے کافی دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ اپنے ہم وطن کو دیکھ کر دل خوش ہوا اور کافی دیر تک اسے دیکھتا رہ گیا۔

گلاسنیوین سمیٹری Glasnevin Cemetery
بہ قبرستان گزر کردم کم و بیش
بدیدم قبر دولتمند و درویش
نہ درویش بے کفن در خاک رفتہ
 نہ دولتمند برد یک کفن بیش۔   بابا طاہر
میرے معزز پڑھنے والے یہ مت کہیں کہ یہ سیاح کب تک ہمیں کھنڈرات اور قبرستانوں کی سیرکرائے گا؟ چونکہ ہر کسی کا اپنا شوق ہوتا ہے اور اس شوق کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے۔ میری دلچسپی جدید عمارتوں کے مقابلے میں ماضی کے نشانات میں زیادہ ہے اس لیے جہاں بھی جاتا ہوں ان کی تلاش رہتی ہے۔ اگرچہ مجھے آرکیالوجی کا الف با نہیں آتا تاہم ماضی میں جھانکنے کی کوشش جاری رہتی ہے۔ قبرستان بھی ماضی کی اہم ترین یادگار ہوتا ہے اور جائے عبرت بھی جیسا کہ بابا طاہر کے اشعار سے ثابت ہے۔ 
مسلمانوں کے مقابلے میں عیسائی لوگ اپنے مردوں کی نشانیوں کا بڑا خیال رکھتے ہیں اور انہیں تروتازہ اور صاف ستھری رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ ان کے کتبوں کے ساتھ تازہ تازہ پھولوں کے دستے بھی رکھے ہوتے ہیں اور بتی بھی جل رہی ہوتی ہے۔اس لیے ان کا قبرستان بھی کسی خوبصورت پارک سے کم دیدہ زیب نہیں ہوتا۔
ڈبلن کا یہ قبرستان بھی یہاں کی دوسو سالہ تاریخ ہے جسے  کیتھولک فرقے کے حقوق کے علمبردار نامور سیاسی لیڈر ڈینئیل او کونیل نے کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ فرقوں کے لیے مشترکہ قبرستان کے طور پر حاصل کیا تھا۔ اس سے پہلے  کیتھولک مسیحیوں کے خلاف سخت جانب دارانہ قوانین کی موجودگی میں ان کی تجہیز وتکفین کے لیے مناسب جگہ نہیں تھی۔ وہ معمولی رسومات  کے ساتھ پروٹسٹںٹس کے گورستانوں میں اپنے مردے دفناتےتھے۔ 
یہ قبرستان 124 ایکڑ زمین پر پھیلا ہوا ہے جہاں کم و بیش پندرہ لاکھ افراد مدفون ہیں۔ ان میں ڈینئیل او کونیل کی قبر کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ بہت سے اہم سیاسی، مذہبی، ثقافتی اور ادبی شخصیات یہاں آسودہ خاک ہیں۔ جن میں چارلس سٹیوارٹ پارنیل، جیمز لرکین،ایمون ڈی ولیرا، لیوک کیلی، برنڈن بیہان،مائکل کولنز اور کونسٹانس مارکیوکز آئرش تاریخ کے بہت اہم کردار گزرے ہیں۔
گلاسنیوین قبرستان میں داخل ہوتے ہی ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی بڑے خاموش شہر میں داخل ہوگئے ہیں جس کے اندر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت سڑکیں بنائی گئی ہیں اور پودے اگائے گئےہیں۔ عمارتوں کی جگہہ مردوں کے سروں پر استادہ کتبے ان لوگوں کی داستانیں خاموش زبان سے دہراتے ہوئے لگتے ہیں۔ یہاں ایک میوزیم بھی ہے جس میں یہاں مدفون مشہور و معروف افراد کی یادگار چیزیں محفوظ ہیں۔۔ 
یہاں مجھے ایک اور بات کا بھی علم ہوا کہ یہاں مغربی یورپ اور شمالی امریکہ کے مسیحیوں کی ایک بڑی تعداد ہندؤں کی طرح اپنے مردوں کی لاشیں جلانے (cremination) کو ترجیح دیتے ہیں اور انہیں اس کی قانونی اجازت بھی مل چکی ہے۔ قبرستان میں ایسے افراد کے لیے محض کتبے نصب ہوتے ہیں۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ