آئرلینڈ یاترا۔۔۔17

آئرلینڈ کی پہلی مسجد
1950 کے عشرے میں مسلمانوں کی آئرلینڈ میں آمد شروع ہوئی تھی۔ اس سے پہلے چند ایک افراد شاید یہاں پہنچے ہوں لیکن ان کے متعلق کوئی تحریری ثبوت موجود نہیں۔  1959 میں ڈبلن شہر میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی گئی جس کانام ڈبلن اسلامک سوسائٹی رکھا گیا تھا۔ بعد میں اس کا نام اسلامک فاونڈیشن آئرلینڈ رکھا گیا۔یہ تنظیم یہاں تعلیم پانے والے طلبہ کی تھی۔ 1971 میں اسے فرینڈلی سوسائٹی کے نام سے آئرلینڈ سرکار کے ساتھ رجسٹر کیا گیا۔ اس وقت تک مسلمانوں کی کوئی مستقل عبادت گاہ نہیں تھی۔ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھتے تھے اور عیدین کے لیے کرایے کا ہال کمرہ حاصل کیا کرتے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی تو اسلامک سوسائٹی کو مستقل عبادت گاہ کی ضرورت محسوس ہوئی۔ 1976 میں سعودی بادشاہ شاہ فیصل کے مالی تعاون سے 7 ہرینگٹن سٹریٹ ڈبلن 8 میں ایک عمارت خرید گئی اور اس میں مسجد کا قیام عمل میں لایاگیا۔  1981 میں منسٹری آف انڈومنٹ اینڈ اسلامک افیرز آف کویت نے اس مسجد کےلیے مستقل امام  کی تقرری کے لیے فنڈ مہیا کیا۔ 1983 میں اسلامک فاونڈیشن آئرلینڈ نے ابو ظہبی کے المکتوم فاؤنڈیشن کی مالی مدد سے 163 ساؤتھ سرکلر روڈ پر 1860 کی تعمیر پرسبیٹیرئین گرجاگھر خریدا لیا۔  اور اس میں ردوبدل کرکے مسجد میں تبدیل کیا گیا۔ اس کے ساتھ فاؤنڈیشن کا دفتر اور ایک اسکول بھی قائم کیا گیا۔ آئرلینڈ میں اسلامی طرز تعمیر کے مطابق تعمیر شدہ پہلی مسجد  ڈبلن کے نواحی علاقہ گولینسکیہ میں ہے۔ اس کے ساتھ اسلامک کلچرل سنٹر بھی قائم ہے۔ اس کا انتظام و انصرام بھی اسلمک فاونڈیشن آئرلینڈ کے ہاتھ میں ہے۔ اس سنٹر کی تعمیر بھی المکتوم فاؤنڈیشن کے مالی تعاون سے ہوئی ہے اور چلانے کے لیے فنڈ بھی المکتوم فاؤنڈیشن ہی مہیا کرتا یے۔ اس طرح دوسری مسجد   Ballyhaunis، County of Mayo میں بن گئی ہے۔  اس کے علاؤہ ہر صوبے میں ایک مرکزی مسجد ہے لیکن باہر سے مسجد کی اسلامی شکل و صورت نظر نہیں اتی البتہ کرایے کے مکانوں میں قائم عبادت گاہیں چالیس سےاوپر ہیں جنہیں کمیونٹی سنٹر کہتے ہیں۔  اس وقت شمالی ڈبلن میں ایک بڑی مسجد بننے کا غلغلہ 2913 سے چل رہا ہے تاہم اس میں کس حد تک کامیابی ہوئی ہے اسکا علم نہ ہوسکا۔
آئرلینڈ میں موجود مسجدوں میں دی جانے والی اذان کی آواز باہر نہیں آتی کیونکہ سرکار اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اس لیے نمازی نماز کے اوقات کے ٹائم ٹیبل پر عمل کرتے ہیں۔
 2016 کی مردم شماری کے مطابق آئرلینڈ میں مسلمانوں کی تعداد 63413 ہے۔ سب سے زیادہ مسلمان آبادی ڈبلن میں ہے جہاں کم و بیش 27 ہزار مسلمان رہائش پذیر ہیں۔ آئرلینڈ کے تمام صوبوں میں مسلمان بستے ہیں۔ کل تعداد کا نصف آئرش شہری ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ابادی زیادہ تر تارکینِ وطن کی ہے جوافریقہ، ایشیا، وسط ایشیا کے درجنوں ممالک سے آئے ہوئے ہیں۔
ایور شاربروڈت، تولاسکارانہو، عادل حسین خان،یافا شانیک اور ویوین ابرہیم کی مشترکہ تحقیقی تصنیف 
Muslims in Ireland: Past and present
پر  Sam Tranum کے ریویو کے مطابق پندرھویں صدی میں شمالی  افریقی قزاقوں کا بحری جہاز 20 جون 1631 کو مغربی کورک کے پرشور پانیوں کی بندرگاہ میں داخل ہوا تھا اور انہوں نے بتلیمور گاؤں پر رات کی تاریکی میں حملہ کرکے قتل و غارت کا بازار گرم کیا تھا۔  گاؤں کو تہہ و بالا کرتے ہوئے 107 افراد کو پکڑ کر لے گئے تھے۔ جنہیں خلافت عثمانیہ کے قلمرو میں بطور غلام بیچ ڈالا تھا۔ اس کے بعد سترھویں صدی کی شدید قحط کے دوران عثمانی ترک سلطان نے ایک بڑے جہاز میں امدادی خوراک آئرلینڈ بھیجا تھا۔ 1861 میں میراولاد نام کا ایک تعلیم یافتہ شخص ہندوستان کے اترپرادیش سے لندن آیا۔ پھر لندن سے آئرلینڈ پہنچا۔ یہاں ٹرینیٹی کالج ڈبلن میں اس کی تقرری ہوئی۔ اس نے کئی دہائیوں تک اس ادارے میں پڑھایا تھا۔ تاہم اس نے ایک انگریز خاتون سے شادی کی اور اس کےبیٹےارتھر کو رتھمینیس کے چرچ میں عیسائی مذہب میں داخل کیا گیا تھا۔ وہ خود غالباً شیعہ تھا۔ 1894 میں عربی بازار یہاں پہنچا جو گھومنے والے تاجرتھے اور ان کا تعلق عرب ممالک سےتھا۔ 1919 میں چھہ مصری ڈاکٹر آئرلینڈ پہنچ گئے۔ ان میں پانج مسلمان اور ایک عیسائی تھا۔ 1930 میں آئرش ٹائمز نے پہلی دفعہ " Ireland's first Muslim" کے عنوان کے تحت 30-40 پنجابیوں کی آئرلینڈ پہنچنے کی رپورٹ شائع کی۔ جن کی اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ 1935 میں حلال ذبیحہ کے شق کو آئین کا حصہ بنایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت تک مسلمانوں کی تعداد کافی بڑ گئی تھی یا ممکن ہے کہ یہودیوں نے اس قانون کے پاس کرانے میں کردار ادا کیا ہو کیونکہ ان کی کافی تعداد ڈبلن میں موجود تھی۔
جنوبی افریقہ پر سفید فام اقلیت کے اقتدار میں ان کے امتیازی قانون کے مطابق سیاہ فام طلبہ کو کالجوں میں داخلہ نہیں ملتا تھا۔ 1945 میں جب سر آغا خان سوئم (سر سلطان محمد شاہ) نے افریقہ کا دورہ کیا تو یہ مسلہ اس موقعے پر ان کے سامنے اٹھایا گیا۔ انہوں نے آئرلینڈ کے نائب وزیراعظم  ایمن ڈی ولیرا سے رابط کرکے ان کے لیے ٹرینیٹی کالج ڈبلن میں سالانہ چھ میڈیکل کی نشستیں منظور کرائیں۔ ایمن ڈی ولیرا  اور سر آغا خان دونوں اسمبلی آف دی لیگ آف نیشنز کے صدر رہ چکے تھے۔ 1952 میں رائل کالج آف سرجنز میں بھی چند سیٹیں ان کے لیے مختص کی گئیں۔ یوں 1960 تک یہاں ہندی نژاد جنوبی افریقیوں کی بڑی جتھا بن گئی تھی۔ 
1991 کے بعد مسلمانوں کی تعداد بہت تیزی سے بڑھنے لگی یہاں تک 2011 کی مردم شماری میں اس بیس سالوں کے دوران 1000 فیصد اضافہ دیکھا گیا۔ اس وقت اسلام آئرلینڈ میں تیسرا بڑا مذہب ہے اور کل آبادی کا ایک عشاریہ تین فیصد ہے۔
ان دنوں یہاں کے پرامن مسلمان آبادی یہ حدشہ محسوس کر رہی ہے کہ آئرلینڈ میں بھی انتہا پسند مسلمانوں کا داخلہ شروع ہوچکا ہے جو یہاں کی پرامن مسلم آبادی کا امیج خراب کر سکتے ہیں۔ ( جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ