آئرلینڈ یاترا۔۔۔16

آج تک میں نے آئرلینڈ کے صوبہ لینسٹر اور خاص کرکے صدر مقام ڈبلن شہر کی قدیم یادگاروں اور پارکوں کی سیر کی۔ اب ذرا شہر سے باہر جھانکنے کی بھی کوشش کریں گے۔ ایک خاص بات یہاں کی یہ ہے کہ آئرش لوگ اپنی قدیم تاریخی عمارتوں کو اپنی اصلی حالت میں زندہ رکھنے کے ساتھ ساتھ جدید دور کے تقاضے بھی پوار کرتے جا رہے ہیں۔ عصر نو کا فن تعمیر بھی پرکشش اور پرشکوہ ہے۔ پانج چھہ منزلوں کی جدید عمارتوں کا بیرونی حصہ زیادہ تر شیشوں پر مشتمل ہے۔ نئی تعمیرات میں سموئیل بیکٹ بریج فن تعمیر کا قابل ستائش نمونہ ہے جو دریائے لیفی کے اوپر بنایا گیا ہے۔ یہ جنوب میں سرجان راجرز کوئ یعنی گھاٹ (quay) اور شمال میں گولڈ سٹریٹ اور نارتھ وال کوئ  کو ملاتا ہے۔ اس پل کا ڈیزائن آئرلینڈ کے قدیم اور قومی آلہ موسیقی Harp کی شکل کا ہے جو ایک جھکےستون کے سہارے31 آہنی رسیوں کی مدد سے کھڑا ہے۔ اس کا ڈیزائن Santiago Calatrava  نے تیار کیا تھا اور تعمیر ڈچ کمپنی Garham Hollandia Joint  Venture  نے کی۔ 2007 میں کام کا آغاز کیا اور 2009 کے دوران مکمل کرلی۔ 10 دسمبر 2009 کو ٹریفک کے لیے کھول دیا گیا۔ پاکستان میں اس قسم کا پل تیار ہونے میں دس سال لگتے ہیں۔ پل کی لمبائی 120 میٹر اور اونچائی 48 میٹر ہے۔ اس کے اوپر سےبیک وقت چار لین میں گاڑیوں کی امدورفت ہوتی ہے اور دو پیدل کی پگڈنڈیاں ہیں۔ کوئی انجینئیر میرے ساتھ ہوتا تو اسکی بہتر لفظی تصویر نگاری کرسکتا تھا۔ میں اپنے موبائل سے لی گئی اس کی تصویر قارئین کو دکھاتا ہوں تاکہ وہ خود اندازہ لگا سکیں کہ ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ پل کسی عجوبہ سے کم نہیں ہے۔

Seapoint Beach
ویسے آئرلینڈ کے چاروں طرف سمندر ہی سمندر ہے اس لیے یہاں ساحلی علاقوں کی کمی نہیں سوائے اس کے شمال مغربی کچھ حصے کے جہاں سمندر کےکنارے اونچی کھردری گھاٹیاں ہیں اور سیاحوں کے لیے قابل رسائی نہیں ہیں۔ ڈبلن کے مشرق میں سی پوائنٹ کے نام سے آئرش سمندر کا ساحلی علاقہ سیاحوں کے لیے پر کشش ہے۔ یہ رتھ ڈاؤن کے علاقے میں بلیک راک اور مانکس ٹاؤن کے درمیان واقع ہے۔جہاں بذریعہ ریل اور بس رسائی آسان ہے۔ ریل تو اس کے کناروں کے ساتھ ساتھ بچھائی گئی ٹریک پر چلتی رہتی ہے البتہ بس سے اتر کر دس پندرہ منٹ پیدل چلنا پڑتا ہے۔ جنوری کی سردی میں بھی یہاں پکنیک منانے والوں کی کمی نہیں ہے۔ اس کے کنارے اپنے کتوں اوربچوں کے ساتھ چہل قدمی تو عام سی بات ہے لیکن جب میری نظر سمندر میں تیرتے بوڑھے اور جوان آدمیوں پر پڑی تو پہلے سمجھا کہ بڑی مچھلیاں ہوں گی۔ جب غور سے دیکھا تو میری غلط فہمی دور ہوگئی اور میرے جسم میں سردی کی زوردار لہر دوڑ گئی اور میں تھرتھر کانپنے لگا گویا آئرش نہیں بلکہ یہ چترالی بندہ غوطہ لگا رہا ہو۔ اگرچہ دھوپ تھی لیکن ٹھنڈی کاٹنے والی ہوا بھی چل رہی تھی۔ میرے سر کو کانوں تک ٹوپی نے ڈھانپ رکھی تھی اور ہاتھ کوٹ کی جیبوں میں گھسے تھے۔ ادھر آئرش لوگ سمندر میں ڈبکیاں لگا رہے تھے۔ یہ لوگ برفانی مخلوق تھے یا ہم  منفی 16 سنٹی گریڈ سرد علاقے کے سست ترین لوگ، یہ بات میری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ میری عمر کے "جوان" بلا خوف زکام و نمونیا پیراکی کا شوق فرما رہے تھے اور میں سمندر کے کنارے ساحل پر کھڑے تہہ در تہہ کپڑوں میں لپٹا ٹھٹھر رہا تھا۔ کتنا بڑا فرق ہے ہم میں اور ان میں؟ کسی نے کیا خوب کہا ہے،
ساحل پر رہ کے فقط ہم کو ریت ہی ملی
ہم  ڈوہتے تو گوہر نایاب دیکھتے
آئرلینڈ والوں کا ننگے سر پھیرنے کا ذکر پہلے بھی ہوچکا ہے۔ جب سی پوائنٹ کے سمندر میں ان کا شعل پیراکی دیکھا تو ان کا گنجے سروں کے ساتھ گھومنا کوئی عجیب نہیں لگا۔ سردی ہمارے لیے ناقابل برداشت ہوگئی تو ہم نے پند تصویریں کھینچنے کے بعد بھاگ کھڑے ہوگئے۔
اس بندرگاہ میں دو فوجی جہاز پرنس آف ویلز اور راکڈیل 1807 میں ڈوب گئے تھے جس کے نتیجے میں 400 فوجی موت کے آغوش میں چلے گئے تھے ۔ان کی یادگار بھی یہاں استادہ ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ