آئرلینڈ یاترا۔۔۔15

فینکس پارک اور ڈبلن چڑیاگھر
Phoenix Park and Dublin Zoo, Dublin
  ڈبلن شہر  سے تین چار کلومیٹر مغرب کیطرف دریائے لیفی کے شمالی کنارے میں واقع  یہ پبلک پارک ڈبلن کا سب سےبڑا پارک ہے اور یورپ کے کسی شہر میں واقع پارکوں میں بھی رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا ہے۔اس کا رقبہ 707 ہیکٹرز یعنی 1750 ایکڑ ہے۔  اس کے اردگرد چاردیواری کی لمبائی گیارہ کلومیٹر ہے۔
  بارھویں صدی عیسوی میں نارمنوں نے جب ڈبلن پر قبضہ کیا تھا تو اس وقت کیسل نوک کے پہلے Baron ہگ ٹائرل نے  موجودہ پارک سمیت ایک وسیع زمین نائٹس  ہاسپٹلرز کو دیا تھا۔ انہوں نے کلمینہیم میں خانقاہ قائم کیا تھا جہاں اس وقت رائل ہسپتال قائم ہے۔ 1537 میں ہنری ہشتم کے ہاتھوں خانقاہوں کے خاتمے کے نتیجے میں نائٹس اس زمین سے محروم ہوگئے۔ اس کے آٹھ سال بعد یہ زمین ڈبلن میں شاہ چارلس دوئم کے نمائندے کے قبضے میں دی گئی۔ 1662 میں ڈیوک آف ارمنڈ نے اسے شکار گاہ بنا لیا اور اس کے اردگرد چاردیواری بنوائی۔ اس وقت سے یہ پارک چکارا ہرنوں کا مسکن ہے۔ دریائے لیفی کےجنوب میں واقع زمین پر 1680 میں انگریز فوجیوں کے لیے رائل آئرش ہسپتال تعمیر ہوا۔ 1745 میں یہ پارک عوام کی تفریح کے لیے کھول دیا گیا۔
  انیسویں صدی میں عدم حفاظت کا شکار ہوا۔ پھر جب اس کا انتظام کمشنر آف ووڈز اینڈ فارسٹ کے ہاتھ میں آیا  تو نامور انگریز لینڈ سکیپ آرکیٹیکٹ Decimus Button کے ذریعے اس کا نئے سرے سے ڈیزائن کرایا گیا اور بیس سال کے طویل تعمیری کام  کے بعد موجودہ فینکس پارک وجود میں آیا۔ 1882 میں یہاں پر چیف سکرٹری فار آئرلینڈ لارڈ فریڈرک اور انڈر سکرٹری تھامس ہنری بروک کو نا معلوم افراد نے چھری مارکر قتل کیا تھا جب وہ ڈبلن سے چلے آرہے تھے۔ اس لیے اسے فریڈرک کا مقتل بھی کہتے ہیں۔
پریذیڈنٹ آف آئرلینڈ کی رہائش گاہ بھی یہیں واقع ہے۔ یہ 1745 میں بنی تھی۔ 1922 تک انگریز وائسرائے اس میں رہائش پذیر رہے تھے۔ آئرلینڈ کی آزادی کے بعد یہ مکان صدر نشین بن گیا۔
آئرش پریذیڈنٹ ہاؤس کے سامنے سڑک کی دوسری طرف امریکی سفیر کا گھر ہے۔ یہاں 1430 میں ایشٹون کیسل بنا تھا۔ بعد میں 1776 سے یہ انڈر سکرٹری کی رہائشگاہ کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ پھر امریکی سفیر کا دفتر رہا۔ 1927 سے یہ امریکی سفیر کا مستقل مکان ہے۔

ڈبلن چڑیا گھر
یہ چڑیا گھر 1830 میں قائم ہوا تھا۔ اس میں کوئی 700 جانور اور پرندے ہیں۔  ان میں قابل ذکر شیر، چیتے، برفانی چیتے، بھیڑیے، زیبرا، گینڈے، گوریلے اور چیمپینزی اور بندر کی مختلف نسلیں شامل ہیں۔ یہ چڑیا گھر بہت بڑے رقبے پر پھیلا ہوا ہے جہاں ہر قسم کے جانور کے لیے کھلا قدرتی ماحول مہیا کیاگیا ہے۔ اس کے وسط میں بہت بڑا تالاب ہے جو آبی پرندوں کا گھر ہے۔ ان کے علاؤہ درختوں کی بھی درجنوں اقسام اس میں اگائی گئی ہیں۔ بچوں کی تفریح کے لیے ڈمی جانور اور پرندے تو رہگزروں کے اطراف میں ہزاروں کی تعداد میں نصب ہیں اور کھیل کود کا انتظام الگ سے ہے۔ اس کی سیر کے لیے ایک پورا دن چاہیے ہوتا ہے ورنہ آدمی اس کا احاطہ نہیں کر سکتا۔

پال کراس: 35 میٹر اونچا پال کراس اس کے مرکزی حصے میں نصب کیا گیا ہے۔ یہ پوپ جان پال کی آمد کے موقع پر 1979 میں یہاں نصب کیا گیا تھا جہاں پوپ نے اپنی آمد کے پہلے دن ماس منعقد کرایا تھا۔ اس تقریب میں دس لاکھ لوگوں نے شرکت کی تھی۔ 2018 میں پوپ فرانسس نے اپنے دورہ آئرلینڈ کے آخری دن  یہاں ماس کی تقریب کرائی تھی۔
ان کے علاؤہ کئی یادگار یہاں کھڑی ہیں جن میں 62 میٹر اونچی یادگار ویلنگٹن، ڈیوک آف ویلنگٹن کی فتوحات کی یاد میں بنائی گئی ہے۔ یہ یورپ میبں سب اونچا مینار ہے۔ 1747 میں ارل آف چسٹرفیلڈ نے فینکس کالم بنوایا تھا۔ غرض فینکس پارک کے اندر ڈبلن کی تاریخ کی جھلکیاں ہر طرف نظر آتی ہیں۔
بچوں نے ہمیں لے کر تین دفعہ فینکس پارک کی سیر کرائی پھر بھی اسے پوری طرح دیکھ نہیں پائے۔ چڑیاگھر کی سیر کے بعد جب باہر نکلا تو میں بہت تھک گیا تھا۔ بس اسٹاپ پر لگی بنچ پر  پندرہ سولہ سال کے ایک بچے اور ایک بچی کو بیٹھے آپس میں کھسر پھسر کرتے ہوئے پایا۔ خیال تھا کہ یہ مہذب لوگوں کے بچے حسب روایت بنچ میرے لیے خالی کریں گے لیکن یہاں مجھے مایوسی ہوئی جب ان بچوں نے ایک معمر شخص کے لیے نشست نہیں چھوڑی۔ سوچا کہ نوجوان نسل میں غیر شائستگی کی بیماری ہمارے ہاں ہی نہیں بلکہ یہاں بھی پہنچ گئی ہے۔ میں نے صاحب کریم سے کہا ، " بیٹا یہ میرا پہلا تجربہ ہے کہ آئرلینڈ کےبچوں میں بھی بے مروت دیکھتا ہوں"۔۔ جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ