دورہ ترکی سلسلہ 14

دورہ ترکی سلسلہ 14
استنبول کا علاقہ ایوب سلطان کو اگر ہم شہر اصحاب رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کہدیں تو نامناسب نہ ہوگا۔ حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار کے اردگرد سینکڑوں شہدا  آسودہ خاک ہیں جن میں درجنوں اصحاب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کا شرف رکھتے ہیں۔ یہ اصحاب کرام قسطنطنیہ کے محاصروں کے دوران یا تو شہادت پائے تھے یا بیمار ہوکر وفات پائے تھے۔ یہ محاصرے 674 ع سے لے کر 678 عیسوی تک جاری رہے تھے۔میرے رہنما برخورداروں یعنی اکرام اللہ خان، نیاز محمد اور واجد علی خان نے ایک ایک کرکے ہمیں ان کی زیارت کرائی۔ اس دوران محمد منشا سے بھی ملاقات ہوئی جو مزار ابو ایوب رض میں مجاور کی خدمت انجام دے رہا ہے اور جس کا تعلق پنجاب سے ہے۔ اس نے ان اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے کافی معلومات فراہم کیں۔ ان بڑی ہستیوں کے مزاروں پر فاتحہ خوانی سے روحانی سکون ملا۔ ان میں حضرت ابو درداء، حضرت کعب، حضرت عبداللہ الخذری، حضرت محمد الانصاری، حضرت احمد الانصاری ابو صعیب الحذری، حضرت ادہم، حضرت عبدالصادق بن عامر، حُمیداللہ الانصاری ، حضرت ابوذر الغفاری ( حضرت ابوذر غفاری رض کے بارے میں روایت ہے کہ وہ یہاں کے بادشاہ کو خواب میں نظر آئے تھے اس لیے اسی جگہے پر ان کی یادگار تربت بنائی گئی۔ ویسے ان کا اصل مزار ربذہ میں ہے جہاں انہوں آخری زندگی کسمپرسی کے عالم گزاری تھی جب حضرت عثمان رض نے انہیں مدینہ سے نکال دیا تھا)، حضرت جابر بن عبداللہ ( حضرت جابر کو 19 جہادوں میں حصہ لینے اور چاروں خلفائے راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مشیر جنگ ہونے کا شرف حاصل تھا)،حضرت حافر، حضرت صعبہ، حضرت ابو سعید الحذری، حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت عامر العاص، حضرت وہب، حضرت مسلمہ بن عبدالمالک،حضرت سفیان،حضرت عبداللہ انصاری، حضرت عبدالرحمن سامی، حضرت وار بن عبداللہ، حضرت حسام بن عبداللہ،حضرت عبدالراوف صمدانی،حضرت شعبہ،حضرت ابو سعید الحذری رضوان اللہ علیہم اجمعین کے مزارات ہیں۔ شہدا کے یہ آرام گاہیں استنبول شہر کے اردگرد کی قدیم ترین دیواروں کے آس پاس ہیں۔ پتھر کی یہ دیواریں چوتھی اور پانچویں صدی کے دوران تعمیر کی گئی تھیں۔ ان کی تعمیر اس وقت شروع ہوئی تھی جب شاہنشاہ اعظم کونسٹنٹائین نے قسطنطنیہ کو رومی سلطنت کا دارالحکومت بنایا تھا۔ اس کے بعد کے سات شہنشاہوں کے ادوار میں اس کی تعمیر جاری رہی۔ ان دیواروں نے قسطنطنیہ شہر کو 1453 تک محفوظ رکھا۔ 1453 میں عثمانیوں نے اس شہر کو فتح کر لیا۔ استنبول کی ان تاریخی دیواروں کی اونچائی 12 فٹ ہے اور چوڑائی کم از کم چھ فٹ ہوگی۔ ان کے کھنڈرات دیکھ کر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے۔نہیں لگتا کہ ان کی تعمیر انسانی ہاتھوں سے ہوئی ہو۔
جب ہم صحابہ کرام کے مزاروں کی زیارت سےفارع ہوئے تو اکرام اللہ اور نیاز محمد سے رخصت لے کر اپنے عارضی ٹھکانے کی طرف روانہ ہوئے۔ جہاں سے واجد نے مجھے لے کے چلا تھا واپس اسی مقام پر پہنچ کر ہم نے واجد خان کو بھی دعاؤں کے ساتھ رخصت کیا کیونکہ صاحب کریم مجھے لینے آپہنچا تھا۔ 
ہم نے استنبول میں آخری رات بھی پرانا استنبول کےاسی مکان میں گزاری اور صبح اکھٹے ایرپورٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ زوبی اور کریم کی فلائٹ ہماری فلائٹ سے ایک گھنٹہ پہلے تھی۔ بچوں سے جدا ہوکر کافی دلگیر ہوئے۔ خاص کرکے ہادی محمد غوث کو بہت مس کیا جو ہمیں بہت انٹرٹین کرتا رہا تھا۔
نوٹ: دورہ ترکی پر لکھتے وقت اپنے مشاہدات کے علاوہ میں نے ویکیپیڈیا، مختلف مقامات پر استادہ کتبوں اور کولمین پارک کی تصنیف THE ESSENTIAL RUMI سے استفادہ کیا۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ