دورہ ترکی سلسلہ 11

دورہ ترکی سلسلہ 11

حضرت مولانا جلال الدین رومی۔ رحمۃ اللہ علیہ

حضرت مولانا کے مزار اور میوزیم کے بارے لکھنے سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ مولانا کی مختصر حالات زندگی کا تعارف ہوجائے۔
حضرت مولانا جلال الدین رحمۃ اللہ علیہ جو افغانستان اور ایران میں جلال الدین بلخی کے نام سے شہرت رکھتے ہیں، 30 ستمبر 1207 کو موجودہ افغانستان کے بلخ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ماجد مولانا بہاوالدین ولد اپنےزمانے کے بڑے عالم و فاضل، مفتی اور نا معلوم سلسلہ کے صوفی بزرگ تھے۔ بلخ اور گردو نواح میں ان کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ تیرھویں صدی عیسوی کی دوسری دھائی کے دوران منگولوں کے یلغار کے خوف سے  بلخ سے اپنے بال بچوں سمیت ہجرت کرکے رومن اناطولیہ کے شہر قونیہ آکر بس گئے۔ اسی نسبت سے حضرت جلال الدین رومی کہلانے لگے۔
 رومی کے والد بہاوالدین ولد کی تصنیف  'معارف"جو ان کے روزنامچہ، مواعظ اور روحانی بصیرتی تجربات کا مجموعہ تھی جس میں انہوں نے خدا کے ساتھ روحانی قربت کا برملا تذکرہ کیا تھا بہت سے روایتی علماء کے لیے صدمے کا باعث بنی۔ حضرت جلال الدین کو ان کے والد کے سابق شاگرد برہان الدین محقق نے ان کے والد کی خفیہ  روحانی زندگی کی طرف ہدایت دی۔ برہان الدین اور رومی نے سنائی رح اور عطار رح کا مطالعہ بھی کیا۔ 
 والد کی وفات کے بعد حضرت رومی نے قونیہ کے درویش حلقہ طالبان علم کے شیخ کا عہدہ سنبھال لیا۔ 
 اس وقت تک مولانا رومی کی زندگی ایک اعلے مقام کے مذہبی عالم ، استاد، مذہبی غور وفکر کرنے والے اورغریبوں کے مددگار کی حیثیت سے معمول کی تھی جس وقت تک  ان کی ملاقات ایک اجنبی درویش سے نہیں ہوئی تھی۔ جس طرح اس سے پہلی قسط میں ذکر ہوا ہے کہ اس اجنبی درویش نے مولانا سے ایک سوال کر ڈالا تھا جسے سن کر مولانا بے ہوش ہوکر گر پڑے تھے۔   یہ اجنبی حضرت پیر شمس تبریزی علیہ رحمۃ تھے۔
 پیرشمس رحمۃ اللہ علیہ سے ملاقات کے بعد مولانا رومی رح  کی زندگی میں ایک روحانی انقلاب آگیا اور ان کی زندگی یکسر بدل گئی۔ وہ اپنی معمول کی درس و تدریس سے غیر حاضر رہنے لگے۔ مہینوں یہ دو درویش کمرے میں بند روحانیت کی دنیا میں مست،  ضروریات زندگی سے بے نیاز  رہنے  لگے جس نے راسخ العقیدہ  مسلمان طبقہ اور طلباء کو شمس رح کے خلاف کردیا۔ آخر کار یہ حسد اور دشمنی پیر شمس کی پراسرار غیبت  پر منتج ہوئی جو پہلے مذکور ہوا ہے۔
 
حضرت شمس تبریزی سے جدائی کے بعد بھی حضرت رومی رح اپنی سابقہ زندگی کیطرف لوٹ نہ سکے۔ انہوں نے ایک دوسرا ساتھی پالیا۔ یہ ساتھی صلاح الدین زرکوب تھے۔ شمس کی زندگی میں بھی یہ دو درویش صلاح الدین زرگر کی دکان میں بیٹھا کرتےتھے۔ روایت ہےکہ ایک دن مولانا رومی بازار زرگراں سےگزر رہے تھے کہ اس  زرگر کے ہتھوڑے کی آواز میں انہیں ایک اعلیٰ و ارفع موسیقی سنائی دی جس کے ترنم کے ساتھ حضرت رومی نے گھومنا شروع کیا اور گھنٹوں حالت وجد میں گھومتے رہے۔ یہیں سے سماع کی ریت پڑی۔ صلادین زرکوب کی وفات کے بعد حضرت رومی نے پیرشمس علیہ رحمۃ کےشاگرد اور اپنے محرر حسام الدین چلیبی رح کو اپنا ساتھی بنا لیا۔ اشعار بولتےگئے اور حسام الدین لکھتے گئے یہاں تک کہ کلیات شمس، دیوان اور مثنوی مولانا روم  تخلیق ہوئے۔ حضرت مولانا اپنی مثنوی میں صلا دین زرکوب اور حسام الدین چلیبی سے بار بار مخاطب ہوتے ہیں اور احترام سے ان کا نام لیتے ہیں۔ بہت سے اشعار میں شاعر کی جگہ ان کا نام لکھوایا ہے۔  تاہم جو گرمجوشی حضرت شمس سے مخاطب ہونے میں ظاہر ہوتی ہے وہ ان میں ذرا مدہم لگتی ہے۔ مولانا رومی علیہ رحمۃ 17 دسمبر 1273 کو قونیہ میں وفات پاگئے۔ یہ غالباََ دنیا کی پہلی اور اخری  تجہیز و تکفین تھی جس میں ہر دین ومذہب ، طریق و مسلک کے پیرو یعنی  یہودی، نصرانی ، شعیہ سنی یہاں تک کے آتش پرست بھی شریک تھے اور یکسان غمزدہ تھے۔

مزار حضرت مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ
حضرت پیر شمس علیہ رحمۃ کے مزار پر حاضری کے بعد ہم  سیدھا مولانا رومی علیہ رحمۃ کی طرف گئے۔ مزار کے قرب و جوار میں ساری دکانیں صوفیاء کی حالت سماع کی مورتیوں، تسبیحوں اور آلات سماع سے بھری تھیں۔ رومی کی آخری آرام گاہ کافی بڑی چاردیواری کے اندر ہے۔ چار دیواری کے باہر ایک شاندار پرانی مسجد ہے جو قابل دید ہے۔ یہ غالباََ سلطان سلیم کے نام سے منسوب یے۔ چاردیواری کے اندر مولویہ سلسلہ کے درجنوں صوفیائے کرام کی قبریں ہیں۔ ان مقبروں میں ایک یادگار حضرت علامہ اقبال رح  کے لیے بھی بنائی گئی ہے کیونکہ علامہ حضرت رومی کے غائبانہ مرید تھے۔ 
چاردیواری کی شمالی دیوار کے ساتھ ساتھ مولانا رومی کے ملبوسات، کتابوں، آلات سماع اور دوسری زیر استعمال چیزوں کا میوزیم ہے۔ یہیں پر حضرت پیر شمس کے لیے بھی ایک کمرہ مختص ہے جس میں ان کے مخصوص سرپوش، عصا اور کلیات محفوظ ہیں۔ یہاں حضرات شمس اور رومی رحمہ اللہ عنہم کی شبیہیں بھی بنائی گئی ہیں جو ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے محو گفتگو ہیں۔ مولانا کے فرزند حضرت سلطان ولد رح اور بعد کے مولویہ سلسلہ کے شیوخ کی مخطوطات اور ملبوسات کےلیے بھی الگ الگ کمرے مخصوص ہیں۔ 
مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلے کو مولویہ سلسلہ کہتے ہیں۔ اس سلسلے کا سربراہ شیخ کہلاتا ہے۔ مولانا کی اولاد میں سب سے سینئر درویش اس عہدے پر مقرر ہوتا رہا ہے۔ اس کے ماتحت اشچی دادا ہوتا ہے جس کے ذمے صوفی شاگردوں کی تعلیم و تربیت اور آستانے کا سارا انتظام و انصرام ہوتا یے۔  مولویہ سلسلے میں داخل ہونے کےلئے ایک شاگرد کو 1001 دن خانقاہ میں مختلف خدمات انجام دینی ہوتی ہیں۔ اس دوران انہیں مولویہ طریق کی تربیت دی جاتی ہے۔ مثنوی ، موسیقی اور روحانی علوم پڑھائے جاتے ہیں۔ ان خدمات اور مولویہ طریقے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے درویشوں کا مقام ملتا ہے اور دادا کا خطاب اور رہنے کے لیے الگ حجرہ ملتا ہے۔ اسے حجرہ نشین یا حجرہ گزین بھی کہتے ہیں۔ قونیہ کےمولویہ استانے کے اخراجات کےلیے ایک فاونڈیشن قائم ہے۔
 وقت کی کمی کے سبب سےجلدی جلدی ہم نے میوزیم دیکھا۔ ہر ہر چیز کا بغور مطالعہ نہیں کرسکا جس کی تشنگی رہی۔
جب ہم کمرہ سماع میں داخل ہوئے تو ایسا لگا کہ ابھی ابھی محفل سماع جاری ہے۔ سماع گھر کےاندر مطبخ میں مصنوعی آگ اور چولہوں پر چڑھی دیگیں اور سامنے با ادب خادمین کے مجسمے دیکھ کر بھی ایسا لگا گویا سچ مچ کھانا پک رہا ہو۔ان بزرگوں اور شاگردوں کے مجسمے زندہ ہونے کا شبہ دیتے تھے۔ نیچے تصاویر میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
مزار کی عمارت کے اندر حضرت رومی رح کے علاؤہ ان کی پائنتی میں ان کے فرزند سلطان ولد، صلاح الدین زرکوب اور حسام الدین چلیبی رحمہ اللہ عنہم کے مقبرے بھی موجود ہیں۔ یہاں ایک چھوٹی مسجد بھی ہے اور  مثنوی کا اصل قلمی نسخہ ایک زخیم کتاب کی صورت میں شوکیس کے اندر محفوظ ہے۔ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ