دورہ ترکی سلسلہ 13

دورۂ ترکی سلسلہ 13 

جب پرانا استنبول کےاس زندان نما مکان میں رات باعافیت کٹ گئ تو صبح اٹھ کر شکرخدا بجا لایا۔ صاحب کریم اپنے کمپیوٹر کے پیچھے گیا۔ ڈاکٹر زوبی اور اسکی ماں شاپنگ کے لیے نکلےاور میں پرانا استنبول اکسپلور کرنے نکلا۔ جب گلی کی چڑھائی چڑ کر  اوپر جا نکلا تو پتہ چلا کہ " یہ تو وہی جگہہ ہے گزرے تھے ہم یہاں سے" استنبول کا مرکزی مقام " تقسیم سکوائر" کا علاقہ تھا جہاں کی سیر ہم نے  دولمہ بہچی سرائے دیکھتے وقت کی تھی۔ 
ترکی کی سیر کی مختص میعاد ختم ہونے لگی تو آخری دن ان بزرگوں کے مزارات جانے اور فاتحہ خوانی کےلیے پروگرام بنایا جنہوں نے پہلی اسلامی مجاہدین کی فوج میں شامل تھے جنہوں نے بازنطینی سلطنت کے خلاف جہاد کیا تھا اور یہاں جام شہادت نوش فرمایا تھا۔ ان میں حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مزار پر فاتحہ خوانی کی امانت جناب گل مرادخان حسرت صاحب کی طرف سے بھی میرے ذمے تھی۔ اس لیے آخری دن میں نے ان بزرگوں کے ہاں حاضری دینے کا پروگرام پہلے ہی سے بنایا تھا۔ برخوردارم واجد علی خان آف مردان نے میری رہنمائی کا ذمہ لیا تھا۔ بیگم صاحبہ، ڈاکٹر زوبی اور صاحب کریم نے سودہ سلف خریدنے کا ارادہ کیا۔ اس سے پہلے صاحب کریم نے مجھے اس جگہہ پہنچا دیا جہاں سے واجد نے میری رہنمائی کرنا تھی۔ میں بذات خود اپنی عارضی رہائش گاہ سے سو میٹر کے فاصلے تک آ جا سکتا تھا۔ اس سے زیادہ اکیلا سفر میرے لیے مشکل بلکہ ناممکن تھا کیونکہ میں گوگل کے نقشے کو بھی فالو نہیں کرسکتا تھا اور ترک بھائی بہنوں سے رہنمائی لینے کی راہ میں زبان حائل تھی۔ صاحب کریم اور ڈاکٹر زبیدہ سرنگ موبائل مترجم کے ذریعے ان سے گفتگو کر سکتے تھے۔ میں اور میری بیگم اس ہنر سے بھی محروم تھے۔ اس لیے ضروری تھا کہ میرے ساتھ ایک رہبر ہر وقت موجود رہے۔ یہ جگہہ دولما بہچی محل کے قریب ایک مقامی میٹرو بس / ریل اسٹاپ تھی۔ واجد علی یہاں پہنچ کر میرے گائیڈ کا چارج سنبھال لیا اور صاحب کریم خان کو رخصت ملی۔
واجد نے مجھے لے کر اپنے دوسرے دوستوں کے پاس گیا جن کا تعلق بھی مردان سے تھا۔ یہ پانج چھہ جوان ایک جگہہ رہائش پذیر تھے۔ ان میں ہائر سکینڈری سکول نمبر 4 مردان کا  ایک اور شاگرد بھی ملا۔ ان دوستوں نے ہمیں دوپہر کا پشاوری کھانا کھلایا البتہ روٹی ترکی کی تھی جسے کراچی میں کڑک روٹی کا نام دیا جاتا ہے البتہ فرق اتنا تھاکہ اس روٹی کی شکل و صورت ماکو یعنی shuttle کی سی تھی اور جو ترکی کی عام پکی پکائی روٹی ہے جو بیکری کی دکانوں میں بکتی ہے۔ پشتون برخورداروں کی مہمان داری کا لطف اٹھانے کے بعد ہم اس علاقے کی طرف گئے جو ضلع ایوب سلطان کے نام سے مشہور ہے۔
حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے کون واقف نہیں۔ آپ کا اصل نام خالد بن زید بن کلیب تھا اور یثرب کے معزز قبیلہ بنی نجار سے تعلق رکھتے تھے۔  اس جلیل قدر صحابی رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو ہجرت نبوی ص کے ابتدائی 7 مہینے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے گھر ٹھہرانے اور خدمت کا عظیم شرف ملا تھا۔ مسجد نبوی کی زمین خریدنے اور وقف کرنے کی عبادت عالیہ بھی ان کےحصے میں آئی تھی۔
674 عیسوی میں اسلامی لشکر  قسطنطنیہ فتح کرنے کی نیت سے جب ایراق سے رونہ ہوا تو حضرت ابو ایوب انصاری بھی اپنا نام مجاہدین کی فہرست میں شامل کرالیا۔ اس وقت ابو ایوب رض کی عمر 80 سال کی تھی۔ ان کی ساری زندگی جہاد میں گزری تھی اور ان کی دلی آرزو تھی کہ وہ شہادت پائے لیکن ابھی تک یہ آرزو پوری نہیں ہوئی تھی۔ ان کو اس حدیث نبوی صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا علم تھا جس میں مطابق قسطنطنیہ فتح کرنے والے مجاہدینِ اسلام کو جنت کی بشارت دی گئی تھی۔ روایت ہے کہ جب اسلامی فوج دیوار قسطنطنیہ کے قریب پہنچی تو ابو ایوب بیمار ہوگئے۔ فوج کے سربراہ یزید بن معاویہ نے ان کی وصیت جاننا چاہی تو انہوں نے کہا کہ ان کی وفات کے بعد بھی انہیں فوج کے ہمراہ آگے لےجایا جائے اور دیوار قسطنطنیہ کے پائے میں دفنایا جائے۔ اس وصیت کے بعد حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کی وصیت پر عمل کرایا گیا اور دیورا قسطنطنیہ کے سایے میں سپرد خاک کیا گیا۔
جب 1459 میں عثمانیوں نے قسطنطنیہ فتح کیا تو سلطان کے حکم پر ان کا مقبرہ تعمیر کیا گیا اور اس کے ساتھ ایک شاندار مسجد بھی بنائی گئی جو مسجد ایوب سلطان کے نام سے شہرت دوام رکھتی ہے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ