دورہ ترکی سلسلہ 12

دورہ ترکی سلسلہ  12

دلوں کے شہر قونیہ سے نکلنے کو دل بالکل تیار نہیں تھا تاہم پروگرام پہلے ہی سے مرتب ہونے کی وجہ سے ہمیں اگلے دن واپس استنبول روانہ ہونا ہی پڑا۔ قونیہ سے اسی ریل کے ذریعے انقرہ پہنچے جس میں گئے تھے۔ وہاں سے پھر بس میں بیٹھے۔ سفر کا پہلا حصہ خوشگوار رہا۔ میں نظارہ فطرت میں کھو گیا اور ہادی خان حسب معمول انگریزی نعمہ سرائی میں مست رہا۔ صاحب کریم اپنے لیپ ٹاپ پر جھک گیا جو اس کا عام مشغلہ/ کام ہے۔ ڈاکٹر زبیدہ اور اس کی ماں اس سفر کے دوران کن کن مصروفیات میں رہے اس کا مجھے کچھ علم نہیں۔ باقی ہمسفروں کے بارے میں کچھ بھی یاد نہیں کیونکہ میں اس سفر کا لمحہ لمحہ ملک ترکی کی خوبصورتی اپنے دل ودماغ میں جذب کرنے کی سعی میں اتنا محو تھا کہ  اپنے پس وبیش سے بے خبر تھا۔ کان ہادی کی گلوکاری کا لطف اٹھاتے رہے اور آنکھیں مناظر فطرت کی تصویر نگاری میں کھو گئیں۔ گاڑی میں ہمیں نشستیں بھی بالکل سامنے ملی تھیں۔ نصف مسافت طے ہونے کے بعد حسب سابق اسی ریستوران میں تازہ دم ہونے کے لیے بس ٹھہر گئی جہاں انقرہ جاتے ہوئے ٹھہری تھی۔ ہم نے ترکی چائے کے مزے اڑائے۔ 
یہاں سے جب روانہ ہوئے تو ڈرائیور بدلی ہوئی۔ ہم میں سے ہر کوئی پھر سے اپنے اپنے مشاعل میں مصروف ہوگیا۔ خاص کرکے میں اور میرا پیارا نواسہ اس سفر کا پورا پورا لطف اٹھا رہے تھےاس لیے اپنے اردگرد مسافروں سے بے خبر اپنی دنیا میں گم تھے۔اچانک زور زور کی غصیلی آوازوں نے ہمارے سرور کا ستیاناس کرکے رکھدیا۔توجہ ترش و تلخ آوازوں کی طرف اٹھی تو دیکھا کہ میرے بہت ہی نرم خو اور صابرو شاکر برخوردار صاحب کریم خان انگریزی میں اپنا غصہ اتار رہا تھا تو اس کا مخاطب ترک ڈرائیور ترکی میں چیخ رہا تھا۔ بس کنڈکٹر جو تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا تھا بیچ بچاؤ میں لگا تھا۔ ایک سوڈانی صورت مسافر جوان بھی صلح و صفائی کے لیے آگے بڑ چکا تھا۔ حالات و واقعات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے کافی وقت ضائع کرنے کے بعد پتہ چلا کہ ہمارے ہادی محمد غوث کی توتلی زبان میں انگریزی نعمہ سرائی ترک ڈرائیور کے "مزاج بد" کو ناپسند تھی۔ ذوق جمال سے محروم بد مزاج ڈرائیور صاحب کریم سے کہہ رہا تھا کہ اپنے بچے کو چپ کراو۔ اگر ایسا نہیں کرسکتے تو پیچھلی نشست پرجاکے بیٹھ جائیں۔ ترک ڈرائیور کا یہ بے ہودہ حکم کسی بھی صاحب اولاد بندے کے لیے ناگوار تھا جس کابچہ ابھی ابھی بولنا سیکھ رہا ہو اور جو اپنی معصوم جبلت کی تسکین میں مست ہو۔ صاحب کریم کا سیخ پا ہونا سمجھ میں آرہا تھا لیکن ترک ڈرائیور کا حکم شاہی سمجھ سے باہر تھا۔ یا تو وہ اولاد کی نعمت سے محروم تھا یا طفل بیزار  بے حس انسان تھا۔ ممکن ہے وہ نشی تھا۔ بہر حال جو بھی تھا اس کا رویہ غیر اخلاقی تھا۔ جب میری نظر اپنے معصوم نواسے کے چہرے پر پڑی تو مجھے بھی غصہ چڑھا۔ ہادی اکدم چپ، خوفزدہ،آنکھیں پھاڑے ترک ڈرائیور کو دیکھے جا رہا تھا۔ اس شور و غوغا نے بچے کو اتنا ہراسان کر دیا کہ وہ  خوفزدگی کی حالت میں اس زور سے رونے لگا کہ میرا دل سینہ چیر کر باہر نکلتے ہوئے محسوس ہوا۔ معصوم جگر گوشے کو وحشت زدہ ہوتے دیکھ کر میرے صبر کا پیمانہ بھی چھلکنے لگا اور غیر ارادی طور پر اپنی نشست سے اٹھ کر اپنے سامنے ترک ڈرائیور پر لاتوں کا وار کرتے کرتے بچا بلکہ بچایا گیا۔ خوش قسمتی سے سوڈانی جوان نے میرا دایاں بازو پکڑے رکھا۔ بھلا ہو اس جوان کا جس نے نہ صرف مجھے ترک پہلوان  کی جوابی کاروائی سے بچالیا بلکہ بہت بڑے حادثے سے بھی محفوظ رکھا۔ میری زبانی دہمکی کا اچھا خاصا اثر ہواجب میں نے استنبول پہنچ کرقانونی کاروائی کا پکا ارادہ ظاہر کیا۔ ترک ڈرائیور اکدم خاموش ہوگیا اور باقی سفر کے دوران اس کی زبان کو مکمل تالا لگا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کی اس نامناسب سلوک کا کیا انجام ہوگا جب بات ترک پولیس اور ٹرانسپورٹ کمپنی تک پہنچ جائے گی؟ نوکری بھی جاسکتی تھی اور جیل بھی ہوسکتی تھی۔ اس لیے وہ مزید تکرار سےباز رہا۔ حالات تو قابو میں آگئے تاہم باقی سفر کا مزہ کرکرا ہو کر رہ گیا۔ ہم سب کا موڈ آف ہوگیا۔ اس تناؤ کے نتیجے میں ہم  استنبول شہر میں داخل ہونے کے بعد غلطی سے ایک اسٹاپ پہلے اتر گئے جس سے ایک دوسرے ترک ٹیکسی والے کے وارے نیارے ہوگئے جب اس نے ہمیں اپنی منزل تک پہنچانے کے بعد سو سے زائد لیرے وصولے جو ہمارے سکے کے حساب سے کم و بیش تین ہزار  روپے بنتے تھے۔ ہاں ایک اور غلطی صاحب کریم اور ڈاکٹر زوبی سی یہ ہوئی کہ بس سے اترتے وقت اپنا لیپ ٹاپ بس میں بھول گئے۔ گاڑی کے جانے کے بعد انہیں ہوش آگیا کہ لیپ ٹاپ سیٹ کی تھیلی میں رہ گیا تھا۔ اس کی رپورٹ متعلقہ ٹرانسپورٹ آفس کو کردی گئی البتہ بس ڈرائیور کا "حسن سلوک" دیکھنے کے بعد لیپ ٹاپ کا پھر ہاتھ آجانا مشکل نظر آرہا تھا 

ہمیں اگلی تین راتیں پرانا استنبول کے ایک مکان میں گزارنی تھیں جسے بچوں نے آن لائین بک کرایا تھا۔ اس مکان کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے ایک گھنٹہ مزید ضائع ہوگیا اور تھکاوٹ نے ہمارا برا حال کردیا۔ خدا خدا کرکے جب مکان مل ہی گیا تو اس کی حالت دیکھ کر میرا غصہ پھر سے چڑھ گیا۔ اس بار ترک ڈرائیور کی بجائے اپنے ہی بچوں پر غصہ اتارنے لگا۔ مکان کیا تھا ایک تنگ گلی میں کال کوٹھری تھی جس کے اوپر تین چار منزلیں اسکی مخدوش حالت کو مزید خطرناک بنائی ہوئی تھیں۔ مکان کم و بیش سو ڈیڑھ سو سال پرانا ہوگا جس کے اوپر سمنٹ اور چونا کی ملمع کاری کرکے "جدیدیت" بخشی گئی تھی۔ جائے رفع حاجات ضروریہ کے اندر جھانکا تو ہوش ہی اڑ گئے کیونکہ ایک درمیانی جسامت کا بندہ بمشکل اس میں سما سکتا تھا۔ اشتہار میں دو بیڈروم دکھاکر صرف ایک بیڈ روم ، اس سے جڑا چھوٹا باورچی خانہ اور ایک چھوٹا سا بیٹھک اس مکان کی کل کائنات تھے۔ جب کیچن میں چولہا جلانے کی کوشش کی گئی تو گیس ندارد۔ پھر جب مالکن کو فون کرکے شکایت کی گئی تو اس نےکاریگر بھیج کر چولہا ٹھیک کرایا۔  چولہا جلایا گیا تو کیچن کی گرم ہوا بیڈ روم میں گھسنے لگی اور پہلے ہی سے گرم اور محبوس کمرے کو مزید تکلیف دہ بنا ڈالا اور تھکن سے بدحال وجود کو گویا تندور میں دھکیل دیا۔اوپر سے مچھروں نے برحال کردیا کیونکہ یہ کمرے پنکھے سے بھی محروم تھے۔ میرا دم گھٹنے لگا۔ مکان کی تنگ دامنی اور غیر صحت افزائی قابل برداشت ہوسکتی تھیں اگر اس کی قدامت اور ترکی کے بے رحم زلزلے ذہن پر سوار نہ ہوئے ہوتے جنہوں نے ماضی میں لاکھوں ترکوں کی جانیں لی تھیں۔۔ جب پانج جانوں کو خطرے میں دیکھا تو گرمی اور مچھروں کو بھول گیا۔ اس طرح آج 20 جون 2019 کا دن اور رات کی پہلی پہر ذہنی تناؤ کا سبب بنے اور جس کا نتیجہ بیچارے بچوں پر غصہ کی صورت میں برآمد ہوکر بہت برا ہوا۔ یہ ایک طرح سے میری احسان فراموشی تھی کہ میں نے گزشتہ 12 دنوں کے خوشگوار لمحات اور بچوں کی بہترین خدمات کو یکسر بھول کر انہیں کوسا کہ تم نے یہ کیسا مکان بک کرایا تھا؟ بعد میں بہت افسوس ہوا اور اپنی تلخ زبانی پر دکھ ہوا۔ شاید معافی بھی مانگ لی ہو۔( جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ