دورہ ترکی سلسلہ 10

ہم قونیہ کے ریلوے سٹیشن سے شٹل بس سروس کے ذریعے  اپنے ہوٹل "عثمانیہ" کے قریب اسٹاپ پر اترگئے۔ یہاں سے پیدل چند منٹوں میں جب ہوٹل پہنچے تو کاؤنٹر پر بیٹھے منیجر نے ہمیں بڑے پیار اور تپاک کے ساتھ خوش آمدید کہا۔ عثمانیہ نام پر نظر پڑتے ہی عثمانی خلافت کی شان و شوکت ذہن کے پردے پر جلوہ افروز ہوئی اور ساتھ ہی  اسلامیہ کالج پشاور کا عثمانیہ ہوسٹل یاد آیا جو تمام ہاسٹلوں سے باوقار، شاندار، پرشکوہ اور مغلیہ طرز تعمیر کا بہترین نمونہ ہے۔ اس ہاسٹل میں داخلہ کی ہر طالب علم دلی خواہش رکھتا تھا۔
ہمارا ہوٹل کافی پرانا تھا تاہم پرسکون تھا۔ سروس بھی اچھی تھی۔ہنس مکھ اور خوش اخلاق خادمیں تھے۔  بات کرتے وقت ہاتھ سینے پہ باندھ کر  بڑے احترام کے ساتھ ذرا جھک کر بولتے تھے ۔ یہاں ہوٹل میں کھانے پینے کا بندوبست نہیں تھا۔ لہذا ہمیں خوردونوش کے لیے باہر ریستورانوں میں جانا تھا جو قرب وجوار میں موجود تھے۔ ہماری سفری تھکاوٹ کےسبب ہم نے صاحب کریم خان کو تکلیف دی اور وہ باہر سے خالص ترکی کھانا پیک کرکے لے ایا۔  اگلی صبح ناشتہ کے لیے نکلے تو ایک اونچی جگہ یعنی ٹیلے پر واقع کیفی ٹیریا نظر آیا۔ ہم نے وہاں ناشتہ کرنے ارادہ کیا اور سیڑھیاں چڑھ کر وہاں گئے۔ وہاں سے شہر کانظارہ کیا اور اچھا خاصا ناشتہ بھی کیا البتہ مہنگائی کا احساس ذرا زیادہ تھا۔ یہ جگہ علاءدین پارک کے نام سے جانا جاتا ہے۔  قونیہ شہر اس کے چاروں طرف پھیلا ہوا ہے۔ یہاں سے شہر کا اچھا نظارہ کیا جاسکتا ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ علاء دین پارک قونیہ کا خوبصورت ترین پارک ہے جہاں تیرھویں صدی کی پرانی علاءدین مسجد بھی واقع ہے جس کی مرمت ہورہی تھی۔  باقی جگہ زیادہ تر گلابوں کا باغ ہے جن کے اردگرد سرو اور دوسرے خوبصورت درختوں کی قطاریں لگی ہوئی ہیں۔ رنگ برنگے گلابوں کی بڑی بڑی کیاریوں کے درمیان صاف ستھری پگڈنڈیوں میں گھومتے ہوئے ایسا لگا کہ ہم بہشت کے کسی ٹکڑے کی سیر کر رہے ہوں جو ٹوٹ کر شہر قونیہ کے وسط میں آگرا ہو۔ مجھے کئی کئی دن تک یہاں گھومنے کو کہا جاتا پھر بھی شوق سیر نہ ہو پاتا۔

ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے پہلا قدم حضرت پیر شمس تبریزی رحمتہ اللہ علیہ کے مزار کی طرف اٹھایا جو ہمارے ہوٹل کے قریب ہی واقع تھا۔ کوئی چار پانج منٹ چلنےکےبعد ہم اس جگہہ پہنچے جو محلاسی شمس تبریزی کہلاتی ہے۔ یہاں کی گلیاں اور بازار سب کے سب اسی نام سے موسوم ہیں۔ صرف ایک مینار والی چھوٹی سی مسجد بنام "شمس تبریزی مسجد"  کے باہر کافی بڑی کھلی جگہ سایہ دار درختوں اور پھولوں سے مزین تھی۔ جگہ جگہ بیٹھنے کے لیے بنچیں لگی ہوئی تھیں۔  البتہ  اردگرد کوئی چار دیواری نہیں تھی۔  بتایا گیا کہ شمس کا مزار مسجد کے اندر ہے۔ مسجد کے گرداگرد لوہے کی چادروں کی عارضی دیوار کھڑی تھی۔ ہمیں بتایا گیا کہ مسجد کی مرمت ہو رہی ہے اور اندر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ باہر اس بات کا اشتہار بھی تھا۔معلوم ہوا  کہ اقوام متحدہ کے یونیسکو نے اس مسجد اور مزار شمس کو عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا ہے اور اس کی مرمت کر وا رہی  یے۔ ہم نے باہر سے فاتحہ خوانی کی۔مسجد اور مزار شمس کو اندر سے نہ دیکھ پانے کا افسوس دل میں رہا۔ مسجد شمس کے باہر ایک اور درویش امیر اسحاق بائی کی قبر بھی تھی۔
 مولانا رومی میوزیم میں استادہ معلوماتی کتبے کے مطابق پیر شمس کے نام سے مزاریں تبریز، نغدہ، ہوئی اور ملتان ( جو دراصل پیر شمس الدین سبزواری علیہ رحمۃ کی ہے) میں بھی ہیں۔ اس لیے پیر شمس تبریزی کی اصلی قبر کی نشاندھی آج بھی ایک معمہ ہے۔
زیارت کے باہر بھکاری بچے بھی ملے جو بظاہر کھاتے پیتے گھرانوں کے لگ رہے تھے۔ ان کے لباس سے وہ بھکاری نہیں لگتے تھے۔ چونکہ ہمارے پاکستان میں بھیک مانگنے والوں کا خلیہ بگڑا ہوا ہوتا ہے تاہم ترک بھکاری بھی صاف ستھرا لباس پہنتے ہیں۔ یہ ہم  اور ترکوں میں بڑا واضح فرق نظر آیا۔ 
شہر قونیہ میں ہمیں خواتین اپنے روایتی ترک لباس میں نظر آئیں۔ استنبول کی طرح مختصر لباس یہاں نہیں تھا۔ ان کا سارا جسم سوائے چہرے اور ہاتھوں کے پردے میں تھا۔ لمبا چست جبہ زنو سے نیچے تک اور سر پہ رومال ٹھوڑی کے نیچے بندھا ہوا ترک خواتین بڑی باوقار لگ رہی تھیں۔
(جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ