دورہ ترکی سلسلہ 9

دلوں کا شہر-----قونیہ ترکی

سرزمین قونیہ پر قدم پڑتے ہی دل میں ایک طرح کی روحانی تسکین کا احساس ہوا۔ یہ احساس دو وجوہات کا نتیجہ ہوسکتا تھا۔ ایک یہ کہ ہم پہلے ہی سے اس شہر صوفیائے عظام کے لیے عقیدت رکھتے تھے اور دوسری وجہ حقیقتاً یہ شہر روحانیت کی منازل طے کرنے والے قطبوں کی آخری آرام گاہ ہونے کے ناتے روحانی طمانیت اپنے اندر سمائی ہوئی ہے۔

قونیہ مرکزی اناطولیہ کی سطح مرتفع کا مرکزی بڑا  شہر ہے جس کی آبادی کم و بیش 22 لاکھ ہے۔ یہ شہر تیسری صدی قبل مسیح سے آباد بتایا جاتا ہے۔ قدیم زمانے میں سلطنت روم کا صدر مقام تھا۔ گیارھویں صدی میں سلجوق ترکوں نے اسے بازنطینیوں سے چھین لیا۔ پندرھویں صدی کے دوران عثمانی ترک سلطنت کا حصہ بنا۔ اس وقت یہ جمہوریہ ترکی کا ایک صوبہ ہے اور شہر قونیہ  ترک دارالحکومت انقرہ کے جنوب میں ڈھائی تین گھنٹے کے ریلوے سفر کی مسافت پر بڑا شہر ہے۔

حضرت پیر شمس الدین تبریزی رحمتہ اللہ علیہ
من شاخ درختیم پر از میوہ توحید
ہر رہگزرے سنگ زند عار نہ داریم

پیر شمس رح اور مولانا رومی کی روحانی دوستی شہر قونیہ سے شروع ہوئی جس نے حضرت رومی رح جیسے عالم و فاضل مولوی اور استاد کی زندگی میں روحانیت کی شمع روشن کی۔ پیر شمس الدین علیہ رحمۃ ایران کے شہر تبریز میں 1185عیسوی میں ملک داود ابن علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق آپ کے والد کانام علاؤالدین تھا۔ ویکیپیڈیا کے مطابق آپ کا شجرہ نسب انیسویں پشت میں حضرت علی علیہ السلام سے ملتا ہے۔  ابتدائی تعلیم ابوبکر سلاف سے حاصل کی۔ اس کے بعد شہر شہر ملک ملک سفر کرکے اس زمانے کے بڑے بڑے شیوخ سے قرآن و حدیث کا علم حاصل کیا۔ ابتدائی عمر ہی سے انہیں رہ نوردی اور روحانی جستجو کا جنون تھا اس لیے اہل تبریز انہیں "شمس پریندہ" یعنی اڑنے والا شمس کے نام سے بھی پکارتے تھے۔

شہر قونیہ کے بازار شکر فروشان کی کارواں سرائے میں پیر شمس رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کی پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ روایت ہے کہ پیر شمس سارا مشرق وسطیٰ گھومتے ہوئے ایک ایسی شخصیت کی تلاش کرتا رہا جو بقول ان کے "میری صحبت کا متحمل ہوسکے"۔ انہیں غائبانہ آواز آئی " اس کے بدلے میں تم کیا دوگے؟" کہا، " اپنا سر" ۔ پھر آواز ائی "وہ شخص قونیہ کا جلال الدین ہے". پیر شمس 1244 ع کے آخری مہینوں میں قونیہ پہنچ کر کاروان سرائے شکر فروشان  میں ٹھہر گئے۔ ان کے ساتھ ان کا شاگرد حسام الدین چلیبی بھی تھا۔ حضرت شمس ایک مست الست قلندر، زبردست روحانی وجود رکھنے والا اور علمائے ظاہر  سے کترانے والا درویش تھا۔ مولانارح کو جب اس اجنبی درویش کی آمد اور روحانی زندگی کا علم ہوا تو وہ شمس رح سے ملاقات کے لیے اس کارواں سرائے پہنچ گئے۔ ملاقات میں حضرت شمس رح نے مولانا رومی رح  سے ایک سوال پوچھا۔ حضرت رومی کو وہ  سوال پیر شمس کے دل کی گہرائیوں سے آتا ہوا محسوس ہوا جس کا مولانارح کے دل پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ سنتے ہی بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑے۔  پھر ہوش میں آتے ہوئے انہوں نے شمس کے سوال کا جواب دیا۔ وثوق سے کہنا مشکل ہے کہ حضرت شمس رح نے مولانارح سے کیا سوال کیا تھا؟ اس کے بعد ان میں ایسی دوستی ہوگئی کہ ایک دوسرے کے بغیر رہنےکا تصور ہی نہ رہا۔
ایک اور روایت ہے جسے سید محمد زین العابدین نے مولانا طارق جمیل کے بیان  کراچی اجتماع 2017   کے حوالے سے لکھا ہے ( اردو صفحہ ڈاٹ پی کے)۔ مولانا رومی رح مسجد میں سبق پڑھا رہے تھے۔کتابیں ان کے پاس رکھی ہوئی تھیں۔ایک دیہاتی آیا ننگے پاوں، میلا سا عمامہ اور کتابوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے، مولانا! این چیست؟یہ کیا ہے؟ تو انہوں نے دیکھا کہ ایک دیہاتی ہے، گنوار ہے، ان پڑھ ہے،جاہل ہے،تو انہوں نے کہا، این ان است کہ تو نمی دانی۔ یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا ۔ وہ اکدم آگے بڑھا اور ساری کتابوں کو دھکا دیا، کتابیں پاس حوض میں جاگیریں۔ اوہوہو، مولانا روم نے سر پکڑ لیا۔ ارے تو نے مجھے برباد کردیا۔ ارے ظالم توڑنے میری زندگی کی ساری کمائی تباہ کردی۔ یہ وہ کتابیں نہیں ہیں کہ چھاپہ خانے سے خریدی جاسکیں۔ یہ ہاتھ کے لکھے ہوئے نسخے تھے۔ وہ مسکرایا اور حوض میں ہاتھ ڈال کر ایک ایک کرکے کتابیں واپس نکال کر رکھدی جو خشک تھیں۔ مولانا پر حیرت طاری ہوگئی اور کہا، این چیست؟ پیر شمس نے جواب دیا، این ان است کہ تو نمی دانی۔ یہ وہ ہے جو تو نہیں جانتا۔ بس پھر کیا ہوا؟
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریزی نہ شد۔

پھر ان کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا۔

پہلے پہل یہ دو درویش صلا دین زرکوب کے گھر یا دکان میں ملا کرتے تھے۔ صلا دین زرکوب مولانا کے والد کے شاگرد برہان الدین محقق کا شاگرد تھا۔ پھر مولانا رومی نے پیر شمس کو اپنے گھر میں ٹھہرا لیا۔ یہ وجدانی حالت میں کئی کئی دن بغیر بشری ضروریات  کے کمرے میں بند راز و نیاز کی گفتگو میں محو  رہنے لگے۔ ایک روایت کے مطابق انہوں نے کہ کھینچا اور چالیس دن بغیر کھانے پینے اور فطری ضروریات سے بے نیاز رہے۔ اس چلہ کشی کے بعد مولانا رومی رح تصوف کے عمیق سمندر میں ڈوب گیا۔  چونکہ مولانا رومی کا بہت بڑا حلقہ مذہبی علوم حاصل کرنے والے شاگردوں کا تھا۔ ان کے شاگردوں نے اپنے آپ کو نظر انداز ہوتے ہوئے محسوس کیا نیز مذہبی علمائے عصر کو ان کی صوفیانہ زندگی پسند نہ آئی۔ ان کی حضرت شمس کے ساتھ رقابت پیدا ہونے لگی۔ پیر شمس کو اس کا احساس ہوا اور اچانک ایسے غائب ہوگئے جس طرح اچانک آئے تھے۔ رومی ان کی جدائی برداشت نہ کر سکے اور جگہ جگہ ان کی تلاش کروائی۔ کہتے ہیں کہ مولانا رومی شمس سے اس جدائی کے نتیجے میں شاعری شروع کی تھی اس سے پہلے انہوں نے کوئی شعر نہیں کہا تھا۔
ایک دن انہیں پتہ چلا کہ حضرت شمس دمشق میں ہیں تو اپنے بڑے فرزند سلطان ولد کو انہیں واپس لانے کے لیے بھیج دیا۔ اس نے پیرشمس رح  کو  واپس قونیہ لے آیا۔ جب وہ دونوں ملے تو ایک دوسرے کے پیروں میں گر پڑے۔ ان کی آپس کی عقیدت سے یہ اندازہ لگانا مشکل ہوگیا کہ کون پیر اور کون مرید ہے؟
حضرت رومی رح نے اپنی پروردہ جوان لے پالک بیٹی کا نکاح شمس رح سے پڑھوا دیا اور ایک کمرہ رہائش کے لیے مختص کردیا۔ مولانا رومی کو شمس کی روحانی محفلوں کی لمبی لمبی نشستوں نے درس و تدریس کے کام سے مکمل طور پر دور رکھا۔ نیز پیر شمس کو مروجہ دنیاوی اور دینوی رسم و رواج کی پرواہ نہیں تھی جس کا ںتیجہ یہ ہوا کہ شمس کے خلاف حاسدوں کی تعداد اور دشمنی بڑھتی گئی۔ قونیہ کا روایتی مذہبی حلقہ  شمس کا دشمن بن گیا۔  5 دسمبر 1248 کی ایک رات جب یہ دو درویش دوست بیٹھے ہوئے تھے تو کسی نے عقبی دروازے سے آواز دے کر شمس کو باہر بلالیا۔ شمس باہر نکلے لیکن پھر کبھی نہیں دیکھے گئے۔ حضرت رومی بنفس خود ان کی تلاش میں نکلے اور دمشق تک گئے۔ لیکن شمس علیہ رحمہ کا کہیں  پتہ نہ چلا۔

حضرت شمس علیہ رحمۃ کے غائب ہونے کے بارے میں دو روایات ہیں۔ ایک روایت کے مطابق انتہا پسند مسلمانوں نے حضرت رومی رحمۃ اللہ علیہ کے چھوٹے بیٹے علا دین کے ایما پر انہیں شہید کرکے چاہ میں ڈالدیا کیونکہ علا دین اپنے بابا کی لے پالک  بیٹی سے پیار کرتا تھا اور خود اس سے شادی کا خواہشمند تھا۔ جب اس کی شادی حضرت شمس سے ہوگئی تو یہ انکا جانی دشمن بن گیا۔ دوسری رویت کہتی ہے کہ وہ واقعتاً غائب ہوگئے۔ وللہ اعلم۔
مولانا رومی انہیں ادھر ادھر تلاش کرتے کرتے  دمشق پہنچ گئے لیکن پیر شمس انہیں نہ ملے۔ کہتے ہیں کہ یہاں رومی کو حالت وجد میں پتہ چلا کہ وہ دونوں روحانی طور پر ایک ہوگئے ہیں۔ اس نے یہیں پر ایک  رباعی کہی جس کا ترجمہ یوں ہے۔
"مجھے (شمس کو) کیوں کر تلاش کرنی چاہیے؟ میں بھی وہ (شمس) ہوں۔ ان کی روح میرے اندر بولتی یے۔ (گویا) میں اپنے آپ کو ہی تلاش کر رہا تھا"
  یوں  یہ دوست پیر شمس رحمتہ اللہ علیہ اور رومی رحمتہ اللہ علیہ حالت فنا میں ایک ہوگئے۔ من و تو کا فرق مٹ گیا۔ رومی نے اپنی غزلیات کے دیوان اور رباعیات کے مجموعے کو پیر شمس سے منسوب کردیا اور کہا یہ پیر شمس کے اشعار ہیں جو میری زبان سے ادا ہوئے ہیں۔ ان دو عظیم صوفیاء میں یہ فرق کرنا مشکل ہوگیا کہ کون عاشق اور کون محبوب ہے؟ کون استاد، کون شاگرد ہے؟ کون پیر اور کون مرید ہے؟
حضرت رومی رح  پرتحقیقات کرنے والے کہتے ہیں۔ مولانا کی شاعری پیر شمس رح کے اولین غائب ہونے کے بعد شروع ہوئی اور آئیند بارہ سالوں میں مثنوی کی چھ جلدیں، دیوان اور مجموعہ رباعیات تخلیق ہوئے۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی