حاکم جان مرحوم

30 اگست 2019 کی رات 9 بجے کسی کام کے سلسلے میں برادرم عبدلاعظم لال نوغور دور پاور سے فون پر رابطے ہوا تو انہوں نے بتایا کہ حاکم لالی کے پیٹ میں تھوڑی تکلیف ہوئی تھی اس لیے اسے مستوج لے جایا گیا۔ ہم نے ان کی صحت کے لیے دعا کی اور سو گئے۔ شاید ہماری دعا میں اثر نہیں تھا یا دعا کا وقت ختم ہوگیا تھا۔ صبح خبر آئی کہ حاکم صاحب نصف شب کے قریب دنیا سے رخصت ہوگئے۔ دل دھک کر رہ گیا کیونکہ دو تین دن پہلے ان سے ملاقات ہوئی تھی تو بالکل تندرست تھے اور چہرے پر بھی ایک نکھار سا نظر آیا تھا۔ اتنی جلدی ان کی دنیا سے رخصتی ہمارے لیے شدید صدمے کا باعث تھی۔ ہمیں اس محبت پاش پیاری شخصیت کی عیادت کا بھی موقع نہیں ملا تھا۔ یہ دکھ تا دم زیست باقی رہے گا۔

حاکم جان یارخون کے آخری حاکم لنگر مراد خان کے فرزند کلان تھے۔ انہوں نے دو نسلوں کے درمیان ایک کڑی کی سی زندگی گزاری تھی۔ اپنے والد صاحب کی حاکمیت کا دور دیکھا تھا۔ ریاستی حکمرانی کی شان و شوکت میں پلا اور جوان ہوا تھا۔ نئے دور میں زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ اس دور کے مطابق مڈل تک تعلیم پائی۔ دونوں ادوار کی نسلوں کے ساتھ خوب نبھایا اور دونوں ادوار کی بہترین اوصاف کو اپنی شخصیت کا انمٹ حصہ بنایا۔ پھر آزاد پاکستان میں بحیثیت ڈسٹرکٹ کونسلر بھی خدمات انجام دیں۔ 1984 سے ایک رضا کار سماجی کارکن کے طور پر اپنے چچا مرحوم اقبال دار لال کے ساتھ علاقے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں اور ہراول کا کردار ادا کیا۔ جس میں اے کے آر ایس پی کی امداد سے نہروں کی تعمیر اور منی ہائیڈرو پاور پروجیکٹ کے ذریعے چار پانج گاونوں کو روشنی کی نعمت سے منور کرنا شامل ہیں۔ 2005-6 میں وسطی یارخون کی عوام نے نسبتاً بڑے بجلی گھر بنانے کی جدوجہد شروع کردی تو حاکم مرحوم نے اس میں گہری دلچسپی لی۔ اپنی زمین میں کم و بیش ایک کلومیٹر سڑک بنانے کی نہ صرف اجازت دیدی بلکہ پورے پانج سالوں تک اس روڈ پر چلنے والی ٹریفک کا گردوغبار بھی خندہ پیشانی سے سہتے رہے۔ اپنے خاندان کی خواتین کو درپیش پردے کی تکلیف برداشت کرتے رہے۔ اس بڑے پروجیکٹ کی تعمیر کے دوران آنے والے ملکی و غیر ملکی مہمانوں کے استقبال اوران کے ساتھ ہونے والی عوامی میٹنگوں کےلئے اپنے باغ اور مہمان خانے وقف کرتے رہے۔ اگرچہ ان کی کبرسنی کی وجہ سے انہیں تعمیری کمیٹی سے رخصت دی گئی تھی تاہم انہوں نے اکثر میٹنگوں میں از خود حاضر ہوکر تعمیری کمیٹی کی حوصلہ افزائی جاری رکھی یہاں تک کہ پاور یارخون میں تعمیر ہونے والا 800 کلوواٹ کا چھوٹا بجلی گھر مکمل ہوکر علاقے کے کم و بیش بارہ سو گھرانوں کو بجلی دینے لگا۔

حاکم جان مرحوم ایک انتہائی منکسرالمزاج، ، شریف النفس، نفیس طبع،اعلے درجے کا مہمان نواز اور قدردان انسان تھے۔ چھوٹے بڑے ہر ایک کو عزت دینا ان کی شائستہ زندگی کا قابل تقلید اصول تھا۔ وہ روایتی چترالی تہذیب کا زندہ نمونہ تھے۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنے عظیم والد حاکم لنگر مراد خان سے ورثے میں پایا تھا۔ اس نے اس خاندانی وراثت کو نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ اگلی نسل کو منتقل بھی کیا۔
حاکم جان مرحوم کو موسیقی کے ساتھ بھی گہرا لگاؤ تھا۔ وہ ایک اعلے پائے کا کلاسیکل ستار نواز بھی تھے۔ ان کے ستار کی شیرینی کان میں رس گھولا کرتی تھی۔ موسیقی کے دلدادہ ان کا ستار سننے دور دراز علاقوں سے آکر ان کے مہمان بنتے اور ستار سننے کے ذوق کی تسکین بھی کیا کرتے تھے۔ ان کی انگلیوں میں کمال کا جادو تھا۔ جوانی میں پولو کے بہترین کھلاڑی تھے اور  مشہور شکاری بھی تھے۔
حاکم جان مرحوم نے اپنے پیچھے چار بیٹے اور چار بیٹیاں چھوڑیں۔ بیٹے عیسی مراد خان، امتیاز علی خان، ممتاز علی خان اور احمد علی خان سب کے سب اپنے مرحوم پدر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ان کی طرح مہذب، شریف اور پُر تواضع ہیں۔ حاکم مرحوم، سابق یوسی ناظم فرمان جعفر خان آف یوکُم ، مرحوم عبدلفراز خان ڈی ایف او، مرحوم عبدالظفر خان، عبدلجبار خان،عبدلمبارک خان، عبدالاعظم خان، مشہور پولو پلیر منیرالدین اور خسرو موضع چوئینج کے تایا زاد تھے اور مرحوم خانصاحب آف سرنگ دوری ریشن کے داماد تھے۔
آج ہم اس شیرین سخن، محبت نچھاور کرنے والی در نایاب شخصیت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئے۔ اناللہ واناالیہ راجعون۔ اللہ پاک ان کی لحد کو اپنے نور سے منور رکھے ، امین!

Comments

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی