دورہ ترکی سلسلہ 8

سفر قونیہ کا جب دخترم ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اور اس کے شوہر صاحب کریم خان نے ہمیں ترکی کی سیر کی دعوت دی تو سب سے پہلے حضرات ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالیٰ غنہ، شمس تبریزی رحمتہ اللہ علیہ اور مولانا رومی رحمتہ اللہ علیہ کے مزارات پر حاضری کے شوق نے گنیگار دل دل میں انگڑائی لی تھی۔ بچوں کوبتایا تھا کہ پروگرام میں شہر قونیہ کے لیے وقت رکھا جائے۔ انہوں نے 18 سے 20 جون یعنی تین دن اور دو راتیں اس شہر صوفیائے عظام کے لیے مقرر کر رکھا تھا۔ اس پروگرام کے مطابق ہم نے 18 جون کی صبح نو بجے بذریعہ بس آنقرہ روانہ ہوئے۔ گو کہ استنبول سے ڈائریکٹ قونیہ کی بس سروسز چلتی ہیں۔ البتہ سفر کی طوالت سے بوریت کا امکان تھا اور دوسری طرف ترکی کے دارالحکومت دیکھنا بھی ضروری تھا۔ اس لیے انقرہ سے ہوتے ہوئے قونیہ جانے کو ترجیح دی۔ ترکی کی بسیں انتہائی آرام دہ اور سروس بہترین ہوتی ہے۔ یہ سفر 4 گھنٹے کا تھا لیکن پل جھپکتے ہی طے ہوا کیونکہ ساری توجہ ہائی وے کی اطراف میں ترک آبادی، سرسبزو شاداب ٹیلوں، گھاٹیوں، میدانوں اور گھنے جنگلات کی طرف ہی رہی۔ یہ جنگلات قدرتی نہیں بلکہ ترکی کے محکمہ جنگلات کی ایماندارانہ اور حب الوطنی پر مبنی کاوش ہیں۔ حسین نظاروں کا لطف اٹھانے کے ساتھ میں سوچتا بھی رہا۔ اپنے ملک کی حالت پر دل ہی دل میں روتا رہا۔ کاش ہمارے ملک کو بھی ترکی کے حکمرانوں جیسے ایماندار اور محب وطن حکمران نصیب ہوئے ہوتے تو پاکستان ساری دنیا میں سب سے زیادہ جاذب نظر ملک ہوتا۔ یہاں بھی سیاحوں کا اتنا ہی رش ہوتا جو ترکی میں ہے اور پاکستان بھی ترکی جتنا ترقی یافتہ ملک نظر آتا۔ دوسری طرف ترک جمہوریہ کے حکمرانوں کو خراج تحسین پیش کرتا رہا کیونکہ ملک کی خوشحالی اور ہریالی کے پس منظر مئں ان کا کردار نمایاں نظر آرہا تھا۔ میں ان نظاروں اور خیالات میں مکمل طور پر ڈوب گیا تھا۔ بس میں مہذبانہ ماحول تھا۔ ہادی محمد غوث کی توتلی شرین زبان سے نرسری گیت کے بول کے سوا کوئی سرگوشی بھی نہیں سنائی دے رہی تھی۔ ہادی عام طور پر اس قسم کی سیر و تفریح کے دوران انتہائی خوش گوار موڈ میں ہوتا ہے۔ اس نے گھر سے باہر گھومنے پھیرنے کے لیے اپنا الگ لفظ ایجاد کیا ہوا ہے جو 'بنانی' کہلاتا ہے۔ جب وہ لیٹس گو ٹو بنانی بنانی کا ورد شروع کرتا ہے تب تک چپ نہیں ہوتا جب تک وہ گھر سے باہر نہ نکلے۔ دروازے سے باہر نکلتے ہی اکدم اس کا موڈ خوشگواری میں بدل جاتا ہے اور اپنی رٹی ہوئی نظمیں گانا شروع کر دیتا ہے۔ اسکی یہ نظم خوانی اس کے ماں باپ اور نانا نانی کے لیے سب سے زیادہ سریلی آواز لگ رہی تھی۔ سفر کے درمیانی حصے میں ہماری بس ایک ریستوران میں پندرہ بیس منٹ کے لیے رکی۔ جہاں چائے پی کر تازہ دم ہوگئے۔ ترکی کی اس شاہراہ پر سفر کرتے ہوئے ہم درجنوں سرنگوں اور پلوں اور سینکڑوں گھاٹیوں سے گزرے۔ کسی جگہ گندم کی فصل کاٹی جا رہی تھی تو کسی جگہ ابھی فصل ہری ہی تھی۔ اس کا صاف مطلب یہ تھا کہ ہم اونچی سطحوں سے بھی گزرے تھے لیکن گاڑی کی چڑھائی چڑھنے اور اترنے کا احساس نہیں ہوا۔ یہ ترک انجنئیروں اور تعمیرات کے محکمے کا کمال تھا۔ جب ترکی کے دارالحکومت آنقرہ کی نئی اونچی اونچی عمارتیں نظر آنے لگیں تب پتہ چلا کہ 4 گھنٹے بیت چکےتھے اور ہم نسبتاً جدید شہر میں داخل ہوچکے ٹھے۔ جدید دور کی نوع بنوع فلک بوس عمارتیں مجھے اتنا متاثر نہیں کرتیں جتنا پرانے دور کے کھنڈرات میرے لیے کشش رکھتے ہیں۔ اس لیے انقرہ کا تین منزلہ ھلالی صورت کا بس اڈہ اپنے مسحورکن جدیدت کےباوجود پر کشش نہیں لگا۔ تاہم یہ بتانا ضروری ہے کہ انقرہ کا بس اڈہ ہو یا ریلوے سٹیشن ہمارے ایرپورٹس سے زیادہ کشادہ، صاف ستھرے اور جدید سہولیات سے مزین ہیں۔ ہم کوئی ڈیڑھ گھنٹے انقرہ میں گزارے۔ بس اڈہ سے ریلوے سٹیشن پہنچے اور ٹکٹ وصولے۔ ٹکٹ کے مندرجات پڑھے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مجھے اور میری اہلیہ کو کرایے میں 50 فیصد رعایت دی گئی تھی کیونکہ ہماری عمریں ساٹھ سے اوپر تھیں۔ ہمارے اپنے ملک میں بزرگ شہریوں کو یہ سہولت میسر نہیں ہے جبکہ ترکی میں غیر ملکی سیاحوں کو بھی رعایت دے کر عزت افزائی کی جاتی ہے۔ ایسی ریاست فلاحی مملکت کہلاتی ہے۔ انقرہ سے قونیہ کا سفر کوئی تین گھنٹے کا تھا۔ ریل انتہائی آرام دہ تھی۔ یہاں بھی پرسکون ماحول تھا۔ ہادی کے little lamb, Little lamb یا rain rain go away کی گلوکاری ہی واحد اونچی آواز تھی جو میری سماعت کو محظوظ کر رہی تھی۔جہاں سے قونیہ اور انقرہ کے درمیان ریلوے ٹریک گزرتی ہے یہ زیادہ تر کھیتوں پر مشتمل علاقہ ہے جہاں گندم کی فصل پک گئی تھی البتہ کٹائی کہیں کہیں شروع تھی۔ اس سفر کے دوران رہائشی علاقے کم ہی نظر آئے اور جنگلات بھی کہیں مشاہدے میں نہیں آئے البتہ کہیں کہیں سفیدہ کے درختوں کے چھوٹے چھوٹے جھنڈ موجود تھے۔ یہاں بے آب و گیاہ پست قد ٹیلے اور پہاڑیاں بھی نظر آ رہی تھیں۔ میں نے ترکی کے اس حصے کو چترال اور اپر دیر کے ساتھ موازنہ کیا تو مجھے موسم میں ایک حد تک مماثلت نظر آئی۔ (جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی