دورہ ترکی سلسلہ 6

Dolmabahce Saray Istanbul

استنبول ترکی کے ضلع بشکیتاش میں آبنائے باسفورس کے یوروپی ساحل پر واقع یہ عثمانیہ محل 1856 میں مکمل ہوئی تھی۔ ترکی زبان میں "دولما" کے معنی" بھرا/بھری اور "بہچا" باغ کو کہتے ہیں۔ یعنی بھرا باغ۔ سب سے پہلے یہاں اسی نام کا باغ تھا۔ اس کے بعد لکڑیوں کی چھوٹی محل تعمیر ہوئی تھی جو ساحلی محل کہلاتی تھی۔ 1843 میں اسے گرا کر موجودہ محل کی بنیاد رکھی گئی اور نام " دولمابہچا" ہی پڑ گیا۔ اس محل کے آرکیٹیکٹ غرابت بلیان، اس کا بیٹا نگوغایوس بلیان اور اسی بلیان خاندان کا آرکیٹیکٹ ایوانیس کلفا تھے جبکہ تعمیر کی ذمے داری حاجی سید آغا کے سپرد تھی۔ اس کی تعمیر میں 13 سال لگے تھے۔ اکتیسواں عثمانی سلطان سلطان  عبدالمجید آول نے اس محل کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ اس پر پچاس لاکھ عثمانی سونے کے لیرے لاگت آئی تھی جن کی قیمت 35 ٹن سونے کے برابر تھی۔ اس کے اخراجات اٹھانے کے لیے کاغذ کے نوٹ چھاپے گئے تھے اور بیرونی ممالک سے قرضے بھی لیے گئے تھے۔ اس بھاری زائد مالی بوجھ نے ترکی کو مالی لحاظ سے کھنگال کرکے رکھدیا تھا۔ 1875 میں ترکی ڈیفالٹر ملک ڈیکلیر ہوا اور "یورپ کا مرد بیمار" کا لقب پایا۔ اسی وجہ سے 1881 میں یورپی طاقتوں نے اس کا مالی کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ دور آخر کے عثمانیوں کی عیش و عشرت اور شان و شوکت کی حوس نے انہیں ایک سے ایک اچھی اور پرتعیش محل تعمیر کرنے پر اکسائی ہوگی کیونکہ توپقپی محل کے ہوتے ہوئے اس محل کی تعمیر محض دولت اور وقت کا ضیاع لگتی ہے۔ کاش اس دور کے سلاطین اپنے لیے عمدہ ترین محل بنانے کی بجائے فاطمین مصر کے نقش قدم پر چل کر جامعہ الازہر کی طرح کوئی بڑا تعلیمی ادارہ بناتے تو شاید آج ترکی کا نقشہ مزید خوشرنگ منظر پیش کرتا اور ترکی دنیا کا سب سے بڑا اور طاقتور اسلامی ملک بن چکا ہوتا۔ بھلا ہو اتاترک کا کہ اس نے ترکی کو نہ صرف مزید تباہی سے بچالیا بلکہ اسے استحکام بھی بخشا۔آج ترکی اسلامی ممالک میں سب سے زیادہ طاقتور نظر آتا ہے اور اسلام دشمن ممالک کے لیے خوف و ہراس کا سبب بن گیا یے۔

دولمابہچا سرائے کی تکمیل کے بعد سلاطین عثمانیہ کی شاہی رہائشگاہ اور اںتظامی مرکز بنی اور آخری چھ سلاطین نے یہیں زندگی گزاری اور دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اس محل کے آخری مکین خلیفہ عبد المجید آفندی تھے۔ نئے ترکی کے بانی مصطفے کمال اتاترک بھی یہیں رہائش پزیر رہے اور زندگی کا آخری سانس بھی یہاں پر لیا تھا۔ وفات کے بعد انہیں انقرہ لے جاکر دفنایا گیا۔ یہ محل بہت منقش یعنی بروق سٹائل اور عثمانی طرز تعمیر کی اعلے ترین امیزش  ہے۔ بروق سترھویں صدی میں یورپ میں شہرت پائی تھی۔ فرانس برطانیہ اور اٹلی میں اس اسٹائل کے گرجے بنائے گئے۔ جب یہ محل مکمل ہوگئی تو یہ دنیا میں سب سے خوبصورت عمارت ہونے کا اعزاز پایا تھا۔
دولمابہچا محل کے تین بڑے دروازے ہیں۔ بیرونی دروازہ سلطنت کپیسی/ قپیسی کہلاتا ہے. دوسرا ساحلی دروازہ ہے جو باسفورس کی طرف کھلتا یے اور تیسرا خزانہ دروازہ یعنی خزینہء کپیسی کہلاتا یے۔ محل دو حصوں پر مشتمل ہے۔ سلطنت گیٹ کے اندر داخل ہوتے ہی بہت بڑا حال ہے جو مدھال ھال کہلاتا ہے۔ اس ھال میں دنیا کا سب سے بڑا فانوس لٹک رہا ہے جسکا وزن ساڑھے چار ٹن بتایا جاتا ہے اور جسے برطانیہ سے خریدا گیا تھا۔ اس بڑے ھال کے دونوں اطراف میں باسفورس کے متوازی کمرے انتظامی افسران اور وزراء اور اراکین پارلیمنٹ کے دفترات تھے۔ مدھال ھال مہمانوں کی انتظار گاہ بھی تھا۔ دوسرا حصہ محل کے حرم کی رہائشی مکانات پر مشتمل ہے۔جہاں آٹھ عدد الگ الگ اپرٹمنٹس میں سلطان وقت، مادر سلطان، ان کی ازواج اور داشتہ عورتوں کی رہائشی کمرے، بیٹھکیں، حمام وغیرہ ہیں جنہیں ان کی اصلی حالت میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ محل میں کل 285 کمرے، 46 ھال،6حمام اور 68 ٹائلٹ ہیں۔ ویکیپیڈیا کے مطابق محل کے در و دیوار اور چھتوں پر 14 ٹن سونے کی ملمع کاری کی گئی تھی۔ اگرچہ اس پرتعیش عثمانی محل کی تعمیر پر اٹھنے والے اخراجات نے ترکی کا دیوالیہ نکالا تھا تاہم عصر حاضر میں ترکوں کی دانائی کی بدولت ترکی کے لیرا زرمبادلہ کما رہی ہے۔ روز ہزاروں سیاح اس محل کو دیکھنے پہنچ جاتے ہیں جو 100 لیرا فی کس کے حساب سے لاکھوں لیرے ترکی کے خزانے میں جمع کر جاتے ہیں۔ محل کا ہر حصہ اپنی چکاچوندھ جسے زبان و بیان میں محفوظ کرنا مجھ جیسے معمولی ادب شناس کے لیے ناممکن ہے، ان کےمکینوں کی عیش پرستی کی گواہی دیتی ہے اور زبان حال میں بتاتی ہے کہ جب عثمانی خلفا بادشاہ بن بیٹھے تب ترکی کی عظیم خلافت عثمانیہ کی بنیادیں ہلنی شروع ہوگئی تھیں۔ آخرکار پہلی جنگ عظیم میں زمین بوس ہوگئیں۔
میں دولمابہچا محل کا صرف حرم والا حصہ مکمل دیکھ پایا۔ محل کی مکمل سیر کے لیے کم از کم دو دن چاہیے تھے جو ہمارے پاس نہیں تھے۔ محل کے باہر تاریخی مسجد اور ٹاور استادہ ہیں جو دیکھنے کے قابل ہیں۔جاری ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

کیچ بِک