دوری ترکی سلسلہ 5

تاریخی مقامات دیکھنے کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ہم دولمہ بہچہ سرائے (Dolmabahce Sarayh) کا کھوج لگانے نکلے۔ بعض اوقات گوگل کی رہنمائی بھی ہمیں بھٹکا دیتی تھی اسلیے ترک بھائی بہنوں سے رہنمائی حاصل کر نے کی کوشش بھی ہم نے جاری رکھی۔ کبھی خوشقسمتی سے انگریزی بولنے اور سمجھنے والا مل ہی جاتا تھا۔ ایک صاحب نے ہماری رہنمائی کی اور بتایا کہ استنبول کے مرکزی مقام تقسیم سکوائر بھی دیکھنے کی جگہہ ہے جو دولمہ بہچا سرائے کے قریب ہے اور وہاں سے  پیدل دولمہ بہچا جاسکتے ہیں۔چنانچہ ہم نے ان کی رائے سے اتفاق کیا اور تقسیم نام کے بس اسٹاپ پر اتر گئے۔ یہ زیر زمین اسٹاپ بلکہ جنکشن تھا۔ یہاں سے ہم سیڑھیاں چڑھ کر اس چوراہے پر نمودار ہوئے جو بہت کھلا پکے فرش کا میدان نظر آیا جس کے سنٹر میں قومی یادگار، ترکی کی یادگار جمہوریہ( Republic Monument)کھڑی ہے۔ یہ یادگار ہمارے  مینار پاکستان کی طرح اونچی نہیں ہے تاہم اسکی اپنی ایک الگ ساخت اور شناخت ہے۔ اتاترک اور ساتھیوں کے مجسمے یہاں استادہ ہیں۔
تقسیم سکوائر کے میدان میں کبوتروں کے غول کے غول موجود تھے۔عام طور پر کبوتر مزاروں کےارد گرد اور میناروں پر پائےجاتے ہیں۔ یہاں ان کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی حیران کن تھی۔ دا نے فروش بھی  کاروبار کےلیےموجود تھے۔ سیاح دانے خرید کر کبوتروں کو کھلا رہےتھے۔ یہ کبوتر انسانوں سے اتنے مانوس تھے کہ سامنےسےہٹنےکانام نہیں لیتے تھے۔  بڑی احتیاط سے قدم رکھنا پڑتا تھا کہ کہیں کوئی کبوتر پیر کےنیچے نہ اجائے۔۔ ہادی محمدغوث ان کوپکڑنےکی کوشش میں اتنا مگن ہوا کہ اسے یہاں سے نکال لےجانا اس کے بابا کریم کے لیے مسلہ بن گیا۔ ہم نے باپ بیٹےکووہاں چھوڑ کر پارک کیطرف چل دیے۔
اس چوراہے کی ایک طرف کوئی دس پندرہ فٹ اونچی سطح پر ایک خوبصورت پارک ہے جہاں کئی لوگوں کو درختوں کے سایے میں سستاتے ہوئے دیکھا۔ بعض تو لمبی تان کر سوئے ہوئے تھے۔ اس سے ترکی میں سکیوریٹی کی بہترین نظام کا پتہ چلتا تھا۔ اس پارک کے ایک کنارے پر پولیس اسٹیشن ہے جو لوہے کی جالی کے ذریعے پارک سے جدا کیا گیا یے۔ ہم نے یہاں چاق و چوبند خواتین پولیس کنسٹیبلز کو ڈیوٹی دیتے ہوئے پایا۔ یہاں مرد اور خواتین پولیس دونوں موجود تھیں۔ پارک کے ساتھ چھوٹی بسوں کا اڈہ بھی ہے۔ پارک کے دوسرے کنارے پر کیفی ٹیریا بھی ہے۔ ہمارے یہاں کے کیفی ٹیریا میں کڑاکے کی دودھ پتی چائے ملتی ہے۔ ترکی میں اس کا کوئی تصور نہیں۔ ترک لوگ بغیر دودھ کی ہلکی پھیکی چائے پیتے ہیں۔ ہر دکان میں اور ہوٹل کے کاؤنٹر میں بیٹھے منیجر سے لے کر چائے پیش کرنے والے نوکروں اور سیلز مینوں تک ہر فرد کے ہاتھ میں شیشے کی چھوٹی گلاس ارغوانی گرم مشروب سے بھری نظر آتی ہے۔ پہلے پہلے میں نے اسے دختر عنب سمجھ بیھٹا تھا۔ جب ہم نے بذات خود چائے کی فرمائش کی تو ہم سے صرف یہ پوچھا گیا کہ "بڑی گلاس یا  چھوٹی پیش کروں؟" جب سامنے آئی تو پتہ چلا کہ وہ تو اپنی "سلیمانی" تھی جسے افغان بھائیوں نے افغانستان سے لاکر ہمارے ہاں متعارف کرائے تھے۔ ہوبہو وہی طریقہ استعمال بھی یعنی پھیکی چائے کے ساتھ چینی کی مٹھائی نما ٹکیاں جنہیں ہم نے گلاس میں ڈال کر اپنے لیے میٹھی سلیمانی بنائی۔ ویسے میری بیگم صاحبہ پھیکی چائے پیتی ہے۔  شاید ہمارے  بھائی بلبل سے تحفے میں یہ اچھی عادت پائی ہو۔ایک زمانے میں ہمارے بلبل ولی خان بلبل صاحب کی پھیکی سلیمانی کی بڑی شہرت تھی۔ یار لوگوں یعنی گل مراد خان حسرت، مکرم شاہ، ڈاکٹر فیضی، عافیت خان کو معلوم ہے۔ ترکوں کی یہ چائے مجھے بےحد پسند آئی اور میں اپنے ساتھ بطور یادگار لے آیا۔ ترکی چائے کی تعریف میں موضوع سے زرا ہٹ گیا تاہم غیر متعلقہ بات بھی نہیں کہ نظر انداز کی جائے۔ میں ایک بات پر حیران تھا کی ترک لوگ  بے تحاشا سگریٹ نوشی کے باوجود سرخ و سفید صحت مند کیونکر ہیں؟ میں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ترکی چائے اور محنت میں یہ ساری کرامت ہے۔ ہمارے پڑوسی افغانستان کے لوگوں کی صحت کا راز اس پھیکی چائے میں ہے۔ یہاں ہمارے چترال کے سرجنوں کے حوالے سے یہ کہانی بھی مشہور ہے کہ جب وہ  چترال کے کسی آدمی کے پیٹ کا آپریشن کرتے ہیں تو بدبو سے آپریشن تھئیٹر بھر جاتا ہے اور سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے ۔ جب کسی افغانی کا پیٹ چیرتے ہیں تو کوئی بد بو نہیں اتی۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دودھ والی نمکین چائے صحت کے لیے انتہائی مضر ہے۔ میں اپنے پڑھنے والوں سے درخواست کروں گا کہ وہ بھی پھیکی کالی چائے پینے کی عادت ڈالیں تاکہ بدہضمی کی گندھی بیماری سے نجات پاسکیں۔
تقسیم سکوائر سے گلیاں مختلف اطراف کی طرف نکلتی ہیں۔ جن کے اندر دکانیں اور ہوٹل اور ریستوران ہیں۔ ہمیں بھی طعام کی خوشبو نے ایک گلی کیطرف کھینچی۔ جب ہم اس گلی میں داخل ہوئے تو ہوٹلوں کے نوکروں کے نرغے میں آگئے جوگاہکوں کو اپنے اپنے ریستورانوں کی طرف راعب کر نے کی جدوجہد میں مصروف تھے۔ یہاں سارے کے سارے ریستوران صاف ستھرے تھے۔ سفیدشارٹس اور رنگین پتلون زیب تن بیرے گویا انگریز بابو لگتے تھے۔ ہم نے م جلی کی فرمائش کی۔ کافی انتظار کے بعد جو مچھلی ہمارے سامنے رکھی گئی اسے دیکھ کر ہی بھوک مٹ گئی کیونکہ یہ بھنی ہوئی مچھلی نہیں بلکہ ابلی ہوئی لگ رہی تھی اور پھر تیل میں ویسے ڈالی گئی تھی۔ کوئی مرچ مصالحہ شامل نہیں تھا۔ ہم نے مجبورا کھا ہی لیا کیونکہ بقول یکی پختون بھائی " پہ تولا بندی راغلیو"۔
تقسیم سکوائر پارک کے مقابل دوسرے طرف ایک خوبصورت مسجد بھی نمایاں نظر آرہی تھی۔ وقت کی کمی کے باعث دیکھنے کا موقع نہیں ملا۔ یہ بتانا شاید بھول گیا کی تقسیم سکوائر ایک ٹیلے پر واقع ہے جہاں سے کافی تیز اترائی اترنے کے بعد آبنائے باسفورس نظر آتا ہے۔  ویسے ترکی کا زیادہ حصہ نشیب و فراز زمینی ٹکڑوں پر مشتمل ہے جنہیں جس خوبصورت طریقے سے عمارتوں اور  باغات سے سجایا گیا ہے کہ دل چاہتا ہے کہ انہیں دیکھتے ہی رہیں اور ترکوں کی ہنرمندی کو داد دیتے رہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ