بزرگ پنشنرز

دنیا کے تمام معاشروں میں بزرگوں کو عزت کا مقام حاصل ہے۔ خاص کرکے اسلام کے ماننے والے معاشروں میں ان کی بڑی عزت کی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ نشست و برخاست سے لے کر گفتگو تک ان کا لحاظ ترجیحی ہوتا ہے۔ اگر ہم مختلف ثقافتوں کے حوالے سے گھروں اور گاؤں/ محلوں کی سطح پر کبرسن افراد کا رتبہ دیکھیں تو میری اپنی ثقافت یعنی کھو ثقافت ( جسے چترالی ثقافت بھی کہا جاتا ہے) میں یہ نمایاں نظر آتا ہے۔
کھو لوگوں کے بزرگ افراد کی نشست گھر کے دوسرے افراد سے زیادہ آرام دہ اور سب سے آگے ہوتی ہے۔ کھانے سے پہلے اور کھانے کے بعد ان کے ہاتھ سب سے پہلے دھلوائے جاتے ہیں۔ دسترخوان سب سے پہلے ان کے سامنے بچھایا جاتا ہے۔ کھانا سب سے پہلے ان کے سامنے رکھا جاتا ہے۔ جب وہ اپنی نشست سے اٹھ جائیں تو اہل محفل ان کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں اور جب تک وہ نہ بیٹھیں سب ان کے احترام میں کھڑے رہتے ہیں۔ ان کے بیٹھ جانے کے بعد ہی اہل محفل بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی طرح چلنے پھیرتے ہوئے بزرگ فرد ہمیشہ آگے رہتا ہے۔ اس سے آگے قدم رکھنا بے دبی خیال کیا جاتا ہے۔ باہر سے آنے والا شخص اگر بزرگ ہو اس کے لیے نہ اٹھنا بداخلاقی میں شمار ہوتا ہے۔ عام طور پرگھر کے کم عمر افراد کے سوا باہر سے آنے والے کسی بھی مہمان کے لیے اپنی نشست سے نہ اٹھنا غیر شائستہ حرکت متصور ہے۔
محفل میں اگر کوئی بزرگ بول رہا ہو تو قطع کلام کرنا گری ہوئی حرکت خیال کیا جاتا ہے۔ گھر، گاؤں، محلہ یا علاقے میں کوئی مشاورت ہو رہی ہو تو اس میں بزرگ افراد کی شرکت اور مشورہ لازمی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اگر باہر سے کوئی ضروری مہمان آرہا ہو تو اس کے استقبالیہ لوگوں میں سفید ریشوں کی موجودگی باعث عزوشرف ہوتی ہے۔ غرض معاشرتی زندگی کے ہر شعبے میں گھر سے لے کر علاقے تک سماجی اکائیوں وہاں کے سن رسیدہ اشخاص کو خاص مقام حاصل رہا ہے۔

موجودہ دور میں مجھے ایسا نظر آرہا ہے کہ ہماری سوسائٹی اپنی یہ روایتی قدر کھو رہی ہے گو کہ سرکاری اور مذہبی حلقوں میں کاغذی طور پر یہ دعویٰ موجود ہے کہ معاشرے کے بزرگ افراد کو بڑا مقام حاصل ہے اور وہ خصوصی مراعات کے حقدار ہیں۔ ماسوا ادبی تنظیموں کے عملی طور ہر اس کا مظاہرہ کم پڑتا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر سرکاری سطح کی کسی تقریب میں ان بزرگوں کو مدعو نہیں کیا جاتا۔ کسی اہم مشاورت میں ان کو شامل نہیں کیا جاتا۔ خاص کرکے ہمارے معاشرے کے پنشن یافتہ بزرگوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔ وہ بات الگ ہے کہ چند ایک ایسے پر توانا اور متحرک افراد خود ہی ایسی محفلوں میں حاضر ہوتے ہیں البتہ جو بن بلائے مہمان یا میزبان بننا پسند نہ کرتا ہو اسے مکمل طور پر بھلا دیا جاتا ہے تا آنکہ اس کی موت کی خبر ملتی ہے تو اس پر دعاؤں کی بوچھاڑ کرکے اس پر "احسان" کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے طاق نیسیاں کے حوالے ہوجاتا ہے۔ اگر ہم غور کریں تو ہم پر واضح ہوگا کہ ہم نے اپنے اپنے گھروں سے لے کر ملکی سطح تک اپنے کتنے محسن بزرگوں کو ان کی زندگی میں بھلادیا تھا۔ اس وقت ہم انہیں مکمل طور پر فراموش کر چکے ہیں۔ وہ جو ملازمت کے دوران کارآمد تھے۔ ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد بیکار ہوگئے. کیوں؟ وہ جو جوانی میں اچھے مشیر تھے، کیا بڑھاپے میں اس صلاحیت سے محروم ہوگئے؟ سوچ لیجیئے! خاص کرکے سرکاری افسران، سیاسی قیادت اور مذہبی اور سماجی اداروں کے سربراہان کو سوچنے کی کھلی دعوت دیتا ہوں۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ