ڈپٹی کمشنر اپر چترال کے لیے چیلینجز

ضلع اپر چترال کے لیے ڈی سی کی تعئیناتی کیساتھ نیا ضلع فنکشنل ہوا۔ آج یوم مزدور کی چھٹی کے دن  اپر چترال کے ڈی سی کا ضلعے کےہیڈ کوارٹر بونی پہنچنے کی خبر ملی ہے۔  جہاں پی ٹی ڈی سی موٹل میں ان کے استقبال کی خبر ہمیں فیس کی وساطت سے ملی۔ ہم مسٹر سعود کو دل کی گہرائیوں سے خوش امدید کہتے ہیں۔ علاقے کے عمائدین اور انتظامیہ کے اہلکاروں نے ان کا استقبال کیا ہوگا۔
 تصویر سے لگتا ہے کہ اپرچترال کے ڈی سی صاحب جوان آدمی ہیں۔ ان کا انتظامی تجربہ کتنا ہے یہ ہمیں نہیں معلوم تاہم یہ بات یقینی ہے کہ موصوف کم از کم پی ایم ایس آفیسر ہوں گے اور ایک ضلعے کےانتظامی سربراہ کی حیثیت سے اپنے فرائض سے عہدہ برآ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
پی ٹی آئی سرکار نے بالائی چترال یعنی سب ڈویژن مستوج کا دیرینہ مطالبہ منظور کرکے عوام کا دل جیت لیا ہے لیکن بغیر مطلوبہ فنڈز اور انفراسٹرکچر کے ضلعے کا وجود میں آنا بہت ساری مشکلات سے نہ صرف انتظامیہ کو دوچار کرے گا بلکہ عوام بھی شدید متاثر ہوں گے۔ عوام کی اکثریت نئے ضلعے کی انتظامیہ سے بڑی بڑی تواقعات  وابستہ کرے گی۔ دوسری طرف ضلعی انتظامیہ کے پاس وسائل و ذرائع  کی کمی ہوگی اور عوامی تواقعات پر پورا اترنا اس کے لیے ناممکن نہیں تو مشکل  ضرور  ہوگی۔ عوام کے باشعور طبقے کو ان سب مسائل کا علم ہے لیکن عام لوگ نہیں سمجھ سکتے۔
کسی چھوٹے سے ادارے کا قیام باقاعدہ منصوبے کے تحت عمل میں لایا جاتا ہے۔ سب سے پہلےاس کا پی سی ون بنتا ہے اور پھر منظور ہوتا ہے۔ عمارت کی تکمیل اور فرنیچر وغیرہ سامان و لوازمات کی سپلائی کے بعد پی سی فور کی منظوری دی جاتی ہے اور  اسکے بعد سٹاف کی تقرری عمل میں لائی جاتی ہے۔  تب وہ ادارہ کام شروع کردیتا ہے۔جب بات ایک ضلعے کی ہو تو اس کی مکمل پلاننگ کے بغیر وجود میں لانا کارے دارد۔ ماضی میں سیاسی حکومتیں عوام کو خوش کرنے کے لیے یا ا ن کی شدید ضرورت کو مدنظر رکھ کر نان ڈویلپمنٹ سائڈ پر سکول اور کالجز قائم کیا کرتی تھیں جو آئیندہ کئی سالوں تک انفراسٹرکچر سے محروم رہتے تھے اور طلبہ اور اساتذہ کو انتہائی مشکلات سے گزرنا پڑتا تھا۔ یہاں ایک نئےضلعے کے قیام کا سوال ہے جس کا خالی ہاتھ  اور انفراسٹرکچر کی عدم موجودگی میں تسلی بخش طور پر انتظام و انصرام بہت بڑا چیلینج ہے۔

 ہماری نئی ضلعی انتظامیہ کے لیے دوسری مشکل اس علاقے کی جغرافیائی حالت اور محل وقوع ہے اور پاکستان اور صوبہ خیبر پختونخوا کے انتہائی شمالی، دورافتادہ اور  انفراسٹرکچر کےلحاظ سے بے حد پسماندہ ضلعے کو چلانے کا چیلینج درپیش ہے جو کم و بیش آٹھ ہزار مربع کلومیٹر پہاڑی علاقے پر پھیلا ہوا ہے۔ ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ ایک قابل اور مخلص آفیسر کے لیے ان مشکلات کا مقابلہ کرنا نسبتاً آسان ہے۔
ڈی سی اپر چترال کو سول سوسائٹی، این جی اوز اور سیاسی لیڈرشپ کا تعاون چاہیے ہوگا۔ تمام سیاسی جماعتیں سیاسی اختلافات اور مفادات  سے ہٹ کر نئے ضلع کی نئی انتظامیہ کا ہاتھ بٹانا ہوگا۔ ڈی سی کو بھی چاہیے کہ وہ سول سوسائٹی کے رضاکار ورکروں کی خدمات سے فایدہ اٹھا نے کی سٹریٹجی بھی تیار کرے۔ ہماری امید ہے کہ اپر چترال کی عوام اپنے نوزائیدہ ضلعے کو مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کرنے میں ضلعی انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرے گی۔۔



Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ