عظیم استاد حضرت اللہ جان مرحوم

زندگانی تھی تری  مہتاب سے تابندہ تر
خوبترتھا صبح کےتارے سے بھی تیرا سفر
 ایک اسم با مسمی استاد کی وفات کی مثال آسمان کے ایک
  روشن ستارےکا ٹوٹ گرنا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ آسمان علم و فضل کا ستارہ جب ٹوٹ کر گرتا ہے تو اپنے  پیچھے ہزاروں چمکتے تارے چھوڑ جاتا ہے۔ جو ظلمت کدہ جہاں کو علم کی روشنیوں سے منور کرتے رہتے ہیں۔یوں علم و حکمت کے آسمان کا ستارہ  ٹوٹ کر بھی منور رہتا ہے۔
میرے بہت ہی قابل احترام استاد حضرت اللہ جان کو میری آنکھوں نے ان ستاروں میں سب سے زیادہ روشن پایا ہے۔ میرا ہر استاد میرے لیے شمع فروزاں تھا، روشن ستارہ تھا مگر ان میں سب سے بڑکر درخشان استاد موصوف تھے۔
اس عظیم شخصیت کے بارے میں قلم اٹھانے سے پہلے ہی مجھے  اپنی  علمی کم مایہ گی کا اعترف ہے۔ میں ہرگز یہ دعویٰ نہیں کرسکتا  کہ استاد مرحوم کی زندگی کےبارے میں بہت کچھ جانتا ہوں اور نہ ان کا اور میرا استاد شاگردی کا رشتہ اتنے لمبے دورانیے کا تھا جو اسے بہت قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا باعث بنتا۔ مجھ سے زیادہ وہ شاگرد استاذ مرحوم کی سیرت کے بارے میں جانتے ہیں جن کو ان کی شاگردی میں لمبا عرصہ گزارنے کا شرف ملا ہے۔
مجھے وہ دن آج بھی اسی طرح تروتازگی کے ساتھ یاد ہے جب میری پہلی ملاقات استاد ذی وقار حضرت اللہ جان سے ہوئی تھی۔ یہ 1958 کے مارچ کا مہینہ تھا۔ تاریخ یاد نہیں رہی۔ ہمارا سالانہ امتحان ہونا تھا۔ سٹیٹ پرائمری سکول بانگ یارخون کی دوسری جماعت کے انتہائی نالائق طالب العلم کی حیثیت سے میرا دل دھڑک رہا تھا کیونکہ اردو میں میں اتنا نالائق تھا کہ پاس ہونے کی امید کہیں بھی نظر نہیں آرہی تھیں۔ امتحان سے پہلے دن ہمیں خبر ملی تھی کہ خلیفہ کوراغ کا بیٹا امتحان لینے آرہا ہے۔ اس وقت ہمیں یہ بھی بتایا گیا تھاکہ وہ مڈل سکول مستوج کے ہیڈ ماسٹر ہیں ( پروفیسر سیداللہ جان نے بتایا کہ اس زمانے میں استاد بونی میں تھے)  امتحان کے دن جب سکول پہنچا تو ایک خوبصورت جوان کو لکڑی کی چوکی پر براجمان پایا۔اس سے زیادہ غور سے دیکھنے کا نہ ہوش تھا اور نہ ہمت تھی۔ اس زمانے میں حساب اور اردو املا کا امتحان سلیٹ اور تختی پر لکھ کر دیا جاتا تھا۔ باقی مضامین کا امتحان زبانی ہوتا تھا۔ مختصر یہ کہ میں نے بھی امتحان دیا اور اپنے گروپ کے لڑکوں کے ساتھ جاکر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد میرے استاد محمد کریم نے مجھے خوشخبری سنائی کہ میں پاس ہوگیا ہوں ( یہ کہانی میں  اپنے ایک مضمون " معصوم چور" میں پہلے کھبی لکھ چکا ہوں)۔
شدید ناامیدی کے عالم میں اپنے پاس ہونے کی جو خوشخبری سنی تھی اس وقت سےمیں استاد حضرت اللہ جان کا معتقد ہوگیا تھا۔ پھر اگلے سال انہوں نے تیسری جماعت میں میرا امتحاں لیا تھا اور میں پاس ہوگیا تھا۔ جب پانجویں پاس کرنے کے بعد مڈل سکول مستوج میں داخلہ لیا تو دیکھا کہ محترم حضرت اللہ جان صاحب یہاں ہیڈ ماسٹر تھے اور چھٹی جماعت میں ہمیں ریاضی بھی پڑھانے لگے۔

میں ایک دور افتادہ گاؤں سا آیا ہوا ایک دبلا پتلا شرمیلا  اور ڈرپوک سا لڑکا تھا۔ مڈل سکول میں بڑی تعداد کے انجاں  لڑکوں اور اساتذہ کے درمیان
بے حد گھبمراہٹ کاشکار تھا البتہ ہر مضمون میں بہتر کارکردگی دکھانے کی اپنی سی کوششیں جاری رکھیں۔ خاص کر ریاضی میں استاد محترم حضرت اللہ جان کی تدریس کی برکت سے قدرے بہتر پوزیشن میں تھا۔ روانہ گھر کا کام مکمل کرنا اور آنے والے دن کے اسباق کی پیشگی تیاری میرا معمول تھا۔ میرے کلاس فیلوز حساب میں کوئی خاص اچھے نہیں تھے اسلیے ہر روز ان کو استاد کی ڈانٹ پڑتی اور شاباشی میرے حصے میں آتی تھی جس نے کسی حد تک مجھ میں    خوداعتمادی پیدا کی تھی۔  میری صلاحیتوں اور حوصلے کو مہمیز اس وقت نصیب ہوئی جب ایک دن استاد محترم نے میری کلاس فیلوز سے  مخاطب ہوکر میری طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا، "دل چاہتا ہے کہ میں اس بچے ساتویں کلاس میں لے جاکے بٹھا دوں کیونکہ یہ تم جیسے نالائق بچوں کے ساتھ نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن  ڈرتا ہوں کہ کہیں اس کے لیے مشکل نہ ہو" استاد کے یہ الفاظ میری راہ کی ساری رکاوٹیں ہٹاگئے اور میرےدرخشان مستقبل کی بنیاد رکھ گئے۔ ہاں ایک اعلے صلاحیتوں کے مالک استاد کی یہ صفت ہوتی ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی پوشیدہ صلاحیتوں کو پہچان لیتا ہے اور  اپنے کمال فن سےانہیں باہر لاتا ہے اور انہیں مزید صیقل کرتا ہے۔ اس دن کے بعد میں اپنی جماعت کا ہی نہیں بلکہ اسکول کا قابل ترین طالب العلم ہونے کا اعزاز پایا اور جملہ اساتذہ کی نظروں میں بھی جگہ پائی ۔
 سٹیٹ مڈل سکول مستوج میں ڈیڑھ سال ان کی شاگردی میں رہا اور ایک دن بھی ایسا نہیں آیا کہ استاذ موصوف کلاس میں دیر سے آئے ہوں یا         غیرحاضر رہے ہوں یا کھبی کرسی پر بیٹھ کر ہمیں پڑھائے ہوں۔ سارغوز مستوج میں ان کا سسرال تھا ( پیرزدہ سید اولاد رسول شاہ کے بہنوئی تھے) وہاں ان کی عارضی رہائش تھی۔ سارغوز سے سکول کا فاصلہ کم از کم ساڑھے چار میل تھا۔ وہاں سے پیدل آتے جاتے تھے یعنی       روزانہ کم و بیش نو دس میل پیدل سفر کرتے ۔ کھبی لیٹ نہیں آئے اور نہ کبھی تھکاوٹ شکایت کی۔ کلاس  میں کھڑے کھڑے پڑھاتے اور گھنٹی بجتے ہی کلاس سے نکل جاتے ۔
اس مختصر عرصے میں ہماری جو تربیت کی وہ عمر بھر ساتھ رہی۔ اس کے بعد پھر کھبی استاد کی شاگردی کا شرف دوبارہ نصیب نہیں ہوا۔
غالباً 1989 میں ایک بار پھر استاد محترم کے ساتھ چندمہینے گزارنے کا اللہ نے مجھے موقع  دیا البتہ میرے لیے ایک بڑی آزمائش بھی تھی جب ان کا تبادلہ  سںینئیر انگلش ٹیچر کی حیثیت سے گورنمنٹ ہائی سکول ریشن میں ہوا جہاں میں ہیڈ ماسٹر تھا۔ اس نوعیت کی یہ میری دوسری آزمائش تھی۔ اس سے پہلے میرے ایک اور محترم استاد مفتی ہدایت اللہ کا تبادلہ ان کے گاؤں تریچ مولکھو سے ہائی سکول بونی میں ہوا تھا۔ اتفاق سے میں وہاں بھی ہیڈماسٹر تھا۔ میں نے استاد محترم سے عرض کیا، "سر! آپ کے ساتھ ہونا میرے لیے باعث عزو شرف ہے البتہ اس ناچیز کو آپ کی موجودگی میں ہیڈماسٹر کی نشست پر بیٹھنے کی ہمت نہیں ہوگی۔ اس لیے یا آپ کو ہیڈ ماسٹر کی کرسی سنبھالنا ہوگی اور اس میں میری دلی خوشی بھی ہوگی اور میں آپ کی جگہے پر تدریس کے فرائض انجام دیا کروں گا" فرمایا، " نہیں بیٹا یہ نہیں ہوسکتا" میں نے پھر درخوست کی، اگر یہ عرض منظورنہیں تو دوسری درخواست منظور فرمائیں۔ یعنی آپ گھر پر آرام فرمائیں۔ آپ کے ذمے کے مضامین آپ کا یہ شاگرد پڑھائے گا" دعائیں دیتے ہوئے فرمایا، "بیٹا! میں آپکی یہ بات بھی ماننے سے قاصر ہوں" یوں میرے بزرگ استاد نے اپنے اصول برقرار رکھتے ہوئے کوراغ سے ریشن کا سفر جاری رکھا اور اپنے فرائض کی ادائیگی حسب معمول مثالی طور پر جاری رکھی اور ہمیں مزید تربیت دیتے رہے۔ بڑھاپے کی عمر میں بھی اپنے اس رول ماڈل استاد کوکلاس میں بیٹھ کر درس دیتے نہیں پایا۔
 محترم حضرت اللہ جان  جیسے ڈیوٹی فل اور توانا استاد میں نے اپنی ساری  زندگی میں نہیں دیکھا۔ خوش پوشی بھی قابل تقلید تھی۔ جوانی میں اکثر پینٹ شرٹ میں سکول آیا کرتے۔
ملازمت سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے انتہائی سادگی کیساتھ زندگی بسر کی۔ جب بھی ان کے دولت خانے میں ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا ان کو عام سادہ لباس میں کچھ نہ کچھ کام کرتے ہوئے متحرک پایا۔ اس وجہ وفات تک ان کی صحت اچھی ہی رہی۔ اس ماہ کی 8 تاریخ کو فیسبک میں ان کی وفات کا سن کر غم کے گہرے سمندر میں ڈوبتا ہوا محسوس کیا۔ مجھے ان سے ایک مرتبہ اور ملنا مقدر میں نہیں لکھا تھا اور جس کا مجھے انتہائی افسوس اور دکھ عمر بھر رہے گا۔ اللہ ان کی مرقد پر نور برسائے اور جنت میں اعلی مقام عنایت فرمائے، امین!

جب ان کی فاتحہ کےلیے کوراغ گیا اور ان کے پیارے پیارے بھائیوں پروفیسر سید اللہ جان، ابوالحکم جان اور اسداللہ جان اور فرزند ارجمند ارشاد اللہ جان کے ساتھ چںد ساعتیں گزارنے کا موقع ملا تو پروفیسر صاحب نے بتایا " ہم اپنے برادر بزرگ  کی اپنے لباس کی طرف سے بے اعتنائی کو کفایت شعاری یا کنجوسی سمجھتے رہے۔ ان کی وفات کے بعد احساس ہوا کہ ان کی لباس سے بے پرواہی ان کی درویشانہ طرز زندگی کے سبب سے تھی" اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم  استاد ایک درویش منش ہستی تھے۔ان کی ساری عادتیں درویشانہ تھیں اور اسی طرح ان کا اخری سفر بھی معمولی علالت کے بعد بے خبری میں واقع ہوا۔ عظیم الشان استاد حضرت اللہ جان نے اپنے پیچھے شاگردوں کی بہت بڑا
قافلہ چھوڑ ہے جو سارے چترال میں روشن ستاروں کی طدح پھیلے ہوئے  ہیں۔۔ اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات انجام دینے کے ریٹائرمنٹ کی زندگی گزار رہے اور ہزاروں اب بھی خدمت گزاری میں مصروف ہیں۔
 بقول پروفیسر سید اللہ جان صاحب استاد مرحوم نے 1955 میں سٹیٹ ہائی  سکول چترال سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور مڈل سکول بونی میں استاد مقرر ہوئے۔ ان کو اپرچترال کا پہلا میٹریکولیٹ ہونےکا اعزاز بھی حاصل تھا ( غالباً ہائی سکول چترال کے پہلے میٹرکولیٹ تھے کیونکہ مرحوم جناب شاہ صاحب غالباً ان سے  سینئیر تھے) انہوں نےدرجنوں سکولوں میں  تدریسی فرائض انجام دیےاور تعلیم و تربیت کے  اولین شمع برداروں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ حضرت اللہ جان جیسے استاد صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ اللہ پاک  ان کی دائمی زندگی میں انہیں اجر عظیم عطا فرمائے۔
            مثل ایوان سحر مرقد فروزاں ہو ترا
نور سے معمور یہ خاکی شبستان ہو ترا (اقبال)۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ