نصاب یا عذاب؟

پروفیسر ممتاز حسین کی کل والی پوسٹ پڑھی جس میں انہوں نے بچوں پر لدنے والے سکول بیگز کے وزن کا رونا رویا ہے اور ایک مشہور انگریز لکھاری کے گدھا خریدنے کو بطور تلمیح استعمال کرتے ہوئے بچوں کی کتابوں کا بستہ اٹھانے کے لیے گدھا خریدنے کی تجویز پیش کی ہے۔
بچوں پر کتابوں کے ناقابل برداشت بوجھ ڈالنے پر پروفیسر کی پریشانی اپنی جگہ اہمیت رکھتی ہے کیونکہ بچپن میں بھاری وزن اٹھاکر سفر کا تجربہ ہمارے بعد انکو اور ان کے ہم عمروں کو بھی ہوا ہے جس کے نتیجے میں ہم میں سے کئی ایک خمیدہ کمر ہونے کی" صفت" سے متاصف ہیں۔
میرے سامنے اس سے بھی گھمبیر مسلہ بچوں کے اذہان پر ان کی صلاحیت سے کئی گنا زیادہ بوجھ ڈالنے کی حماقت ہے۔ جو نصاب جماعت اول سے لے کر پنجم تک کے لیے بنایا گیا ہے یہ ان کی ذہانت کی رسائی سے کوسوں دور ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ نہ اس نصاب کو پڑھانے کے لیے اساتذہ موجود ہیں اور نہ اسکولوں میں تعلیمی ماحول میسر ہے۔
میری اوسط ذہانت کی حامل پوتی نے پچھلے سال جب سرکاری سکول میں دوسری جماعت " فسٹ ڈویژن" میں پاس کیا تو مجھے نہیں لگا کہ بچی تیسری جماعت میں چل پائے گی۔ اس لیے میں نے اسے سرکاری اسکول سے اٹھاکر ایک پرائیوٹ اسکول میں ڈالدیا اور اس سے دوسری جماعت پھر سے دھرانے کا فیصلہ کیا۔ میرا خیال تھا کہ پرائیویٹ اسکول میں ٹیچرز ٹرینڈ ہوں گے اور بچی میں بھی تھوڑی ذہنی پختگی آجائے گی۔ آج وہ بچی اسی دوسری جماعت کا امتحان دوسری مرتبہ دینے جارہی ہے اور میں اس کی کارکردگی سے قطعاً مطمئن نہیں ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ بچی کے علمی اکتساب میں ذرہ بھر فرق نہیں آیا ہے۔ خواہ مخواہ اس کا ایک سال ضائع ہوگیا حالانکہ گھر پر اس کی رہنمائی اور مدد مسلسل جاری ہے۔ پرائیویٹ اسکولوں کا حال بھی سرکاری اسکولوں سے مختلف نہیں ہے۔ یہاں بھی آکسفورڈ کا نصاب پڑھانے کے لیے نہ استاد ہے اور نہ لوازمات تدریس موجود ہیں۔ یوں ہماری ان نونہالوں کو معیاری تعلیم کے نام پر عذاب میں مبتلاء کیا گیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ بچوں کو مدرسوں اور تعلیم سے متنفر کرکے بھگانے اور انہیں مزدور بنانے کے لیے دوسرا طریقہ اپنایا گیا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ