ڈاکٹرز اور برین ڈرین

برین ڈرین یعنی قابل افراد کا ملک یا کسی علاقے سے باہر جاکر روزگار کی تلاش ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسلہ رہا ہے۔ ہمارے معاشرے کے اندر اعلی ذہانت اور صلاحیت کے حامل افراد کی قدروقیمت نہیں ہے۔ ان کی صلاحیتوں کے مطابق انکو مراعات حاصل نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ڈاکٹرز، انجینئیرز اور دوسرے شعبوں سےے تعلق رکھنے والے اعلیٰ دماغ ملک سے باہر روزگار ڈھونڈتے ہیں اور ملک انکی بہترین خدمات سے محروم رہ جاتا ہے۔ ہماری پسماندگی کی ایک بڑی وجہ یہ برین ڈرین بھی ہے۔یوروپی ممالک اور امریکہ میں قابل افراد کو نہ صرف ان کی صلاحیت کے مطابق تنخواہیں اور دوسری سہولیات ملتی ہیں بلکہ حکومت اور سوسائیٹی ان کی قدر بھی کرتی ہیں۔ یہ دو چیزیں ہر کسی شخص کی خواہشات میں ترجیحی اہمیت رکھتی ہیں۔ ہر انسان اپنے علم و ہنر اور تجربے  کے مساوی معاوضہ اور مقام کی خواہش اور حق رکھتا ہے۔
ادھر ہمارے ملک میں نہ مالی مراعات حاصل ہیں اور نہ وہ مقام ان کا ملتا ہے جو ان کا حق ہے۔اس لیے ہنرمند طبقہ یہاں سے نکلنے کی تگ و دو میں رہتا ہے۔ جو افراد اپنے ملک اور عوام کی خدمت کو ترجیح دیتے ہیں وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کی وجہ سے مایوسی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اپنا جذبہ خدمت کھو دیتے ہیں۔ اس سے ان کی خدمت کا معیار بھی گر جاتا ہے اور وہ ناجائز طریقے سے کمانے کی عادت بھی ڈال لیتے ہیں۔ اس طرح ہمارے کچھ ڈاکٹرز قصائی کا لقب حاصل کرتے ہیں اور ساری برادری کو بدنام کرتے ہیں۔ اسی طرح دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے کرپشن کے ذریعے اپنی خواہشات کی تکمیل کرتے ہیں۔
کل کی بات ہے کہ میری بچی جو آئرلینڈ میں آئی سپشلائزیشن کر رہی ہے، بتا رہی تھی کہ وہاں ہر تین ماہ بعدڈاکٹرز کو پندرہ دن کی تنخواہ کے ساتھ چھٹی ملتی ہے۔   ہفتہ وار دو دن کی چھٹی الگ سے ہے۔ چھٹی کے دن ڈیوٹی کرنے والے ڈاکٹر اور کسی بھی ملازم کو اس کی دن کی تنخواہ کا پچاس فیصد زائد رقم اورٹائم ملتی ہے۔ اسی طرح ان کال ڈاکٹر اپنے گھر سے کال کے ذریعے کسی مریض کو مشورہ دے تو اسے اس دن کی تنخواہ کے اوپر 25 فیصد زائد رقم ملتی ہے۔ ڈاکٹرز اور دوسرے ملازمین کے بچوں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ مریضوں سے لے کے کر اٹنڈنس تک ڈاکٹروں کی  بڑی عزت کرتے ہیں۔
میری یہ بچی وہاں پڑھ بھی رہی ہے اور ان مراعات سے مستفید بھی ہو رہی ہے جبکہ اس سے بڑی بچی تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال بونی میں میڈیکل آفیسر ہے جو گائنی کیسز اور بچوں کو ڈیل کرتی ہے کیونکہ وہ واحد لیڈی ڈاکٹر ہے اس ہسپتال میں۔ دن رات ڈیوٹی پر مامور ہے۔ اسے تنخواہ کے سوا کچھ بھی نہیں ملتی۔ یہاں تک کہ حوصلہ افزائی کے دو بول بھی ان کو نہیں ملتے۔ مریضوں کے ساتھ آنے والے رشتے دار ڈاکٹروں کو مارنے کو تیار رہتے ہیں۔ نرسز کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں۔ ان کی عزت  و جان کی حفاظت کا کوئی انتظام نہیں ہوتا۔ رہائشگاہیں کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہیں۔ حال احوال پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ان حالات میں ہم کس طرح اپنے ڈاکٹروں  اور میڈیکل سٹاف سے بہترین خدمات کی امید رکھ سکتے ہیں؟ اور ہم کس طرح گلہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے بہترین ڈاکٹرز اور دوسرے پیشوں کے لوگ ملک سے باہر روزگار کیوں تلاشتے ہیں؟  اسی طرح ملک کےاندر دیہات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز شہروں کا رخ کرتے ہیں کیونکہ دیہات کے مقابلے میں شہروں میں سہولیات بہتر ہیں۔ جب تک ہم اپنے ذہین۔ اور ہنرمند افراد کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مراعات اور عزت نہیں دیں گے ہم برین ڈرین کو نہیں روک سکتے اور جب تک قابل افرادی قوت کی ملک سے باہر اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت نہیں رکتی ہم ملک کی اجتماعی ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتے۔

Comments

  1. An accurate description of the sad reality of our country.

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی