سال غیریک اور نوروز

آج کل یہ موضوع سوشل میڈیا میں زیر بحث ہے کہ کیا سالغیریک یا پتھک اور نوروز الگ الگ تہوار ہیں یاایک ہی تہوار کے مختلف نام ہیں؟
اس موضوع پر ماضی میں میں نے چند ایک مضامین لکھے ہیں جو چترال ٹوڈےکے صفحات میں شائع ہوچکے ہیں۔ چونکہ کتاب اور اخبار پڑھنےکا رجحان زوال پذیر ہے اس لیے باربار یہ سوال پوچھا جاتا ہے۔ اس ٹاپک پر دوسر معزز لکھاریوں نے بھی قلم اٹھایا ہے۔ گل مرادخان حسرت صاحب بھی اس پر سیر حاصل بحث کرچکے ہیں۔ یہاں پر پھر سےاختصار کے ساتھ اپنی یادداشت شئیر کرنا چاہوں گا۔
 سال فارسی کا لفظ ہے جو قدیم سے کھوار میں شامل ہے۔ قدیم کھوار میں سال کو یوران کہتے ہیں۔ لفظ "غیریک" چکر دینے کوکہتے ہیں۔ چکر دینے یا گھمانے کو غیردیک بھی کہتے ہیں، مثلاً "خورا بوہتو غیراوے یا غیرداوے" چکی کے پاٹ کو گھماو۔  تو سالغیریک کا لفظی معنی سال کو گھمانا یا چکر دینا ہے یا بدل دینا ہے۔ اصطلاحی معنی میں نئے سال کا آغاز ہے۔
 لوٹکوہ میں اسے پھتک کہتے ہیں۔ البتہ یہ الگ بحث ہے کہ لوٹکوہ والے اس تہوارکو پیر ناصرخسرو کی چلہ کشی سے جوڑتے ہیں۔پھتک دک یا پھتک ݯھاریک دراصل چٹکی بھر آٹا گھر کے ستونوں پر لگانے کو کہتے ہیں۔ شادی بیاہ کے موقعے پر دلہا اور براتیوں کے کندھوں پر چٹکی بھر آٹا ڈالتے ہیں۔ اسی طرح دلہن جب پہلی مرتبہ گھر میں داخل ہوتی ہےتو اسکے کندھےپر بھی آٹا ڈالتے ہیں۔ حال ہی میں ایم ولی صاحب نے پھتک کی پوری طرح وضاحت کی ہے۔
سال غیریک یا پھتک ہر سال فروری کے مہینے منایاجاتا ہے۔ وادی بیار میں عام طور پر اور یارخون میں خاص طور پر  فروری کے دوسرے اور تیسرے ہفتے کے اندر یہ تہوار منایا جاتا تھا۔  بعد میں اسمعیلی اہلکاروں نے اسے نوروز کے ساتھ نتھی کردیا۔ یوں سال غیریک قدیم ایرانی  تہوارمیں بدل گیا۔ اہل انجگان/ خذرہ نے اسے جاری رکھا۔۔

آج ہم انگریزی کلینڈر کے مطابق چلہہ کا آغاز اوراختتام کرتے ہیں۔ بہار اور خزان کے حمل کا تعین کرتے ہیں حالانکہ انگریزی تقویم یہاں انگریزوں کی آمد کے بعد متعارف ہوا۔  اس پہلے ہمارے اباوجداد کو سال کے موسموں کی ابتدا و انتہا، سورج کے برج حمل میں داخل ہونے کا علم تھا اور سال کے مہینوں کے نام بھی انہوں نے رکھے ہوئے تھے۔ ان میں علم لفلکیات کے ماہر حسابدان بھی موجود تھے جنہیں "بول حساب" کہتے تھے۔ یہ لوگ سورج کے چار  برجوں میں داخلے یعنی چلہہ، یوروان، اور دونوں حمل کی تاریخیں متعین کرتے تھے۔ وہ سورج اور تاروں کے طلوع و غروب اور سفر کا گہرا مشاہدہ کرکے بتایا کرتے تھے کہ کب سے چلہہ، حمل اور یوروان کی ابتدا ہوگی۔ اسی حساب سے وہ اپنے تہوار بھی مناتے تھے۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اہل چترال بنیادی طور پر گلہ بان اور کاشتکار تھے۔ ان کے تہوار بھی ان دو پیشوں کی عکاسی کرتے تھے۔ سال غیریک سے وہ موسم بہار کی کاشتکاری کی ابتدا کیا کرتے تھے۔ اپنے گھروں کی صفائی کرکے سرما کی جمی ہوئی آگ کے دھویں کی تہ جھاڑ پونچھ کر نئے سال میں داخل ہوتے تھے۔ گھروں کی دیواروں اور سیلنگ پر نقش ونگار میں بھیڑ بکریوں کے ریوڑ، چرواہوں ، آئی بیکس اور شکاریوں کی شبیہیں جو کے آٹے سے بناتے تھے۔ میرے شعور سنبھالنے سے پہلے سال غیریک کی  رات کو ٹھومن اور بیل کو گھر کے اندر لاکر خاطر توضع کرنے اور اس کے گوبر کی ٹکیہ بناکر خرمن کوبی کے وقت غلے کے ڈھیر کے اوپر رکھنے کی رسمیں بھی تھیں۔ یہ عقیدہ تھا کہ غلے کےڈھیر کے اوپر گوبر رکھنے سے جنات غلہ نہیں چرا پائینگے۔ گھر  کے باہر کھلی جگہے پر آگ کا الاؤ جلاکر اس پر آٹا پھیکنے کو "ٹھومن دک " کہتے تھے۔ بعد میں بیل گھر لانے اور ٹھومن کی رسمیں ختم ہوگئیں۔
سال غیریک کی صبح سویرے گھر کا بزرگ باہر نکلتا ہے تو گھر والے دروازہ بند کرکے اسے گھر میں داخل ہونے نہیں دیتے۔ وہ آواز دیتا ہےکہ "میں نیا سال ہوں مجھے اندر آنے دو" گھر کے اندر سے پوچھا جاتا ہے" ہمارے لیے کیا لائے ہو؟ تو جواب میں وہ کہتا" میں صحت و تندرستی، پیار محبت، دولت و ثروت، نئے سال کی اچھی فصل، دودھ کی فراوانی اور کنوارے بچوں کے لیے رشتے لے کر آیا ہوں" اس طرح کافی لمبی گفتگو کے بعد اسے اندر داخل ہونے دیا جاتا ہے اور اس کے سامنے دودھ یا پنیر پیش کیا جاتا جسے اشپیری کہتے ہیں۔
 سال غیریک کے دن کی خاص خوراک " ݰوݰپ" ہے۔جسے اخروٹ کے تیل یا ملائی یا دودھ کے ساتھ کھاتے ہیں۔ ایک بڑے برتن میں "بیو ݰوݰک" کے نام سے الگ رکھا جاتا ہے جسے بین بونے کی علامتی رسم ادا کرتے وقت کھیت کے جاتے ہیں۔ رسم بوائی ادا کرنے والا بندہ اس سے چند نوالے کھاتا ہے اور باوئ مہمانوں کو پیش کیا جاتا ہے۔ کئی دنوں تک بیو ݰوشپ گھر میں موجود رہتا ہے۔ سال غیریک کا ݰوشپ آپنی بہن بیٹیوں کے  گھروں کو بھی بھیجا جاتا ہے جو "بݰ" کہلاتا ہے۔ گاؤں
والے ایک دوسرے سے ملتے ہیں اور ضیافتیں اڑاتے ہیں۔
۔جہاں تک میری یاداشت کام کرتی ہے "جشن نوروز" بہت بعد میں ہمارے یہاں روج پایا۔ ممکن ہے لوٹکوہ میں پہلے سے مروج ہو۔
یہ ہزاروں سال پرانا ایران  والوں کا تہوار ہے جو بعد میں پورے وسط ایشیا میں پھیل گیا۔ اس کے ساتھ اہم اسلامی تاریخی واقعات کا تعلق بھی ظاہر کیا جاتا ہے اور اسی نسبت سے ہمارے ہاں بھی اسے بڑی اہمیت دی گئی اور رفتہ رفتہ اسے سال غیریک یا پھتک دک کی جگہے پر بٹھایا گیا ۔  یہ ہماری قدیم ثقافت کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے۔ ہمیں اسے پھر سے زندہ کرنا ہے۔  نوروز منانےمیں بھی کوئی حرج نہیں البتہ 21 مارچ کو کھوار کلینڈر کے نئے سال کا پہلا دن قرار دینا قطعاً درست نہیں۔ ہمارا نیا سال فروری کے وسط سے شروع ہوتا ہے۔


Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی