گفتگوے لاحاصل



یہ بات ہم اپنے بزرگوں سے سنی تھی کہ بحث کا انجام برا ہی ہوتا ہے۔ یہ گفتگو لاحاصل ہےاس لیے اس میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ چونکہ وہ زمانہ لاعلمی یا کم علمی کا تھا اس لیے ہم نے سوچا کہ آنپڑھ لوگوں کی بحث میں اختلاف شدت اختیار کرسکتا ہے۔ ممکن ہے اس وجہ سے بحث کو اس وقت کےعقلمندوں نے باعث شر قرار دیا۔ آج کا زمانہ علم و فضل کا ہے۔ علم والے مہذبانہ بحث کریں گے اور اپنے علاوہ دوسروں کے معلومات میں اضافہ کریں گے نہ کہ "میری دلیل ہی درست ہے" پر اڑے رہیں گے ۔ لہذا بحث کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ فائدہ ہی فائدہ ہے۔ اس خوشفہمی میں ہم نے بھی کئی ایک بحثوں میں جاندار حصہ لیا البتہ انجام وہی ہوا جو ہمارے "آنپڑھ" بزرگوں نے کہا تھا۔ ان مباحثوں کے بعد ہم نے اپنے دونوں کان پکڑ کر توبہ کرلی کہ آٴیندہ کسی قسم کی بحث کا حصہ نہیں بنیں گے۔
فیسبک جیسا ذریعیہ اظہار ہر وقت  ہاتھ  میں ہو تو توبہ شکنی ہو ہی جاتی ہے البتہ اپنی رائے دینے کے بعد چپ رہتا ہوں۔ یہ کاریگر چال ہے۔ اپنے دل کی بات بھی کہدی اور حزب مخالف سے الجھَنے کے عذاب سے بھی بچ گئے۔ مخالف بھائی زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتا ہے کہ " اس میں میرے مقابلے  کی تاب نہیں تھی اس لیے بھاگ گیا۔ اس کم علم کے پاس میری چٹان جیسی دلائل کے جواب کہاں ہونگے؟" یوں مخالف دوست بھی خوش اور اپنی جان بھی چھوٹی۔، یعنی اس پسپائی کے دو فائدے ہوے۔
بحث کے لیے موضوعات کی کمی نہیں ہوتی۔ البتہ شائقین بحث کو مذہبی اور سیاسی بحثیں  زیادہ مرغوب ہوتی ہیں کیونکہ ان میں انتہا تک جانے کی گنجائش موجود ہوتی ہے۔ مخالفیں پر تیر چلانے اور ان کے قلب و جگر کو لہو لہاں کرنے کے سارے مواقع دستیاب ہوتے ہیں۔ بحث کے عشاق جب تک اپنے مخالف کے سینے میں الفاظ کے تیر پیوست نہیں کرتے تب تک انہیں مزہ نہیں آتا اور وہ سکھ کا سانس نہیں لے سکتے۔ یہ بھی ایک عادت ہے جسطرح کوئی نشہ آور شئے۔  کسی محفل میں کوئی بحث چھڑ جائے اور شریک محفل خاموش رہے، یہ تو ناممکن بات ہے۔ ہاں اگر اس بحث سے لاتعلقی ہو تو الگ بات ہے۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ کسی محفل میں  ایسی بحث نہ چھڑے جس کا انجام تلخی ہو۔ کسی کی دل آزاری ہو۔
ہماری اس دنیا میں بحثوں کے نتائج مثبت نکلتے تو آج دنیا میں صرف ایک  ہی مذہب ہوتا، ایک ہی طرز حکمرانی ہوتی، بلکہ ایک فرد، خاندان یا پارٹی کی حکومت ہوتی۔ اپنے اسلام کو ہی لیجیے ،کتنے حصوں میں بٹ چکا ہے۔ ہر گروہ اپنے آپ کو ناجی بتاتا ہے ۔ باقی سب بکو کافر جہنمی قرار دیتا ہے۔ ان کی آپس میں بحث تیرہ چودہ سو سالوں سے جاری ہے۔ فرقوں میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ لہذا مجھ جیسے کم علم کی رائے واضح ہے کہ جہاں بحث بے ثمرہو بلکہ آپس میں تلخی کا سبب بنے تو  وہاں پر بحث میں حصہ لینے سے توبہ کیا جائے تو ہم سب کے حق میں بہتر ہوگا۔ زبانی جنگ کی جگہہ اگر عمل کے ذریعے اپنے فرقے  یا سیاسی پارٹی کا مجموعی کردار پیش کیا جائے تو اس سے دوسرے فرقے یا سیاسی نظریہ والے متاثر ہوسکتے ہیں اور سبق حاصل کرسکتے ہیں۔ کسی کو گالی دے کر اور لغن طغن کرکے اپنے ساتھ ملایا نہیں جاسکتا۔
درس ادیب گر بود زمزمہ مجتبی
جمعہ بمکتب آورد طفل گریز پائے را۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی