زلفتراش کی تلاش

میرے گاؤں میں ایک برخوردار نے ذلفتراش کی دکان کھولی۔یہ برخوردار چترال سکاؤٹس میں اس پیشے سے منسلک رہا تھا۔ پنشن لینے کے بعد سوچا کہ اپنے گاؤں میں اس پیشے کو جاری رکھے۔ جب میں نے اس باربرشاب کے بارے سنا تو سب سے زیادہ میں خوش ہوا کیونکہ ہنرمند کی ضرورت کا احساس ہم جیسے پنشن یافتہ سن رسیدہ افراد کو زیادہ ہوتا ہے۔ جو اپنے گاؤں سے باہر قدم رکھنا نہیں چاہتے۔ اس کی وجہ یا تو زندگی کا بڑا حصہ گاؤں سے باہر گزارنے کے بعد باقی حصہ گاؤں ہی میں گزارنے کی آرزوہوتی ہے یا شاید بڑھاپے کی وجہ سے سفر سے  پہلو تہی کا بہانہ ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ وجہ جو بھی ہو میں اپنے گاوں میں انسانی ضرورت کی ایک اہم خدمت کے میسر آنے پر بہت ہی خوش تھا۔ پھر ایک دن بال درست کرنے کا خیال آیا۔ گھر سے نکلا اور کوئی دو کلومیٹر پیدل چل کر اسی دکان کا رخ کیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دکان بندہے۔ میں نے ایک پڑوسی دکاندار سے پوچھا کہ یہ زلف تراش کہاں گیا ہے؟ بتایا گیا کہ اس نے کام چھوڑ دیا ہے۔ وجہ معلوم نہیں تھی۔میں نے اسے کہلا بھیجا کہ میرے گھر آکر میرے بال درست کرے۔   اگلے دن وہ میرے گھر آیا۔ میرے بال تراشے۔ میں نے اس سے پوچھا، " برخوردار! تم نے اپنی دکان  کیوں بند کی؟" اس نے بتایا کہ" گاؤں والے ادھار پر بال ترشوانے لگے۔ کوئی آمدنی نہیں ہوئی کیونکہ ادھار کی واپسی وہ خود نہیں کرتے ہیں  اور مجھے پچاس ساٹھ روپے کے پیچھے در در پھرتے ہوئے شرم  آتی ہے اور مزید وقت بھی ضائع ہوجاتا ہے اس لیے میں نے دکان ہی بند کرڈالی"۔ اس کی باتیں سن کر مجھے بے حد افسوس ہوا گاوں والوں کی اس بے انصافی پر۔ یہ لوگ موبائیل فون کے لیے کریڈٹ کارڈ خریدتے ہوئے ادھار لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے لیکن ایک محنت کار کاریگر آدمی کی محنت کا معاوضہ  ادا کرتے وقت انکے پاس پیسہ نہیں ہوتا۔ یوں گاوں میں  ایک ضروری خدمت سے گاوں والوں کو محروم کرنے کے ساتھ ایک ہنرمند کا رزق  بھی بند کردیتے ہیں۔
قدیم زمانے سے گاوں میں بال تراشنے کے چند ایک ہنرمند لوگ ہوتے رہے ہیں۔ یہ لوگ بغیر معاوضہ کے ایک دوسرے کے بال تراشتے تھے۔ اب بھی شاید ان کے ذہن میں وہی پرانی روایت زندہ ہے کہ بال تراش کو پیسے دینا "فضول خرچی" ہے۔ یہ
مفت میں ہونا چاہیے۔
 ۔ہمارے چترال میں ایک اور سماجی بیماری بھی ہے یعنی بعض پیشوں کو باعث عار جاننا۔ بدقسمتی سے ذلف تراشی کا پیشہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ایک آدمی شوقیہ طور پر باربر کاکام کرے گا لیکن بطور پیشہ اپنانے میں عار محسوس کرے گا۔ہمارے بچپن میں چترال ٹاون میں بھی مقامی نائی موجود نہیں تھا۔ ایک دو دکانیں چترال سے باہر والوں کی ہو کرتی تھیں۔ پھر آہستہ آہستہ زیرین چترال کے چند آدمیوں نے یہ پیشہ اپنایا ۔ بالائی چترال میں اس کا تصور ماضی قریب تک نہیں تھا۔ بالائی چترال میں کچھ فیشن کے دلدادہ بندے چترال ٹاون آکر اپنے بال بنواتے تھے اور محض ضرورت پوری کرنے والے گاوں کے ولنٹئیر ذلف تراشوں پر گزارہ کرتےتھے۔ اب تک سب تحصیل ہیڈ کوارٹر کی سطح پر بابر شاپ قائم ہوگئے ہیں۔ اب مجھے چترال کی بجائے بونی میں بال درست کرانے آنا پڑتا ہے۔ یہاں بھی مجھے اور مجھ جیسے سینکڑوں افراد کو  اپنے کسی دوسرے کام کے سلسلے میں بونی یا چترال کا سفر کرکے بالوں کے بوجھ سے  بھی اپنے  آپکو کو چھڑانے کا موقع ملتا ہے ورنہ  قلندر وں کی طرح لمبے بے ترتیب بالوں کے ساتھ گزارہ کرنا پڑتا ہے کیونکہ محض بال کٹوانے کے لیے ڈیڑھ دوسو کلومیٹر سفر کرنے اور آٹھ نو سو روپے خرچنے کو کس کا دل  چاہے گا؟
کل میں بونی بازارط میں ایک بابر شاپ سے اپنے بال بنوائے۔ دو مہینے پہلے اسی دکان سے میں نے ایسی ہی خدمت لی تھی۔ یہ جوان بابر بونی کا مقامی آدمی تھا۔ میں نے پہلے بھی باسے شاباش دیا تھا۔ اب بھی میں نے اس کی حوصلہ افزائی کے لیے چند الفاظ نظر کئے اور دکان کو وسعت دینے کو کہا تو اس نے بڑی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، " سر میں ادھر اودھر سے شاگرد کی تلاش کرتا رہا ہوں مگر کوئی بندہ اب تک نہیں ملا ہے جو یہ کام سیکھنا چاہتا ہو۔ کام  بہت ہے مگر کاریگر نہیں ہیں"
جب تک کسی معاشرے کے اندر مختلف خدمات کی انجام دہی کے لیے پیشہ ور افراد موجود نہ ہو ں تو وہ معاشرہ ترقی کے سفر میں پیچھے رہ جاتا ہے۔ بظاہر ایک پیشہ بہت معمولی نوعیت کا نظر آٴئیگا لیکن در حقیقت اس کی بھی اتتنی ہی ضرورت  ہوتی ہے جتنی ضرورت کسی ڈاکٹر یا ٹیچر کی ہوتی ہے۔ نیز کوئی بھی پیشہ حقیر نہیں ہوتا جب تک وہ اخلاقی اقدار کے خلاف نہ ہو۔ اس لیے دور حاضر کے جوانوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اپنے گاونوں میں ان تمام پیشوں کی حوصلہ افزائی کریں  اور ان کو اپنانے میں شرم محسوس نہ کرین جو کسی نہ کسی طور معاشرے کی ترقی میں مختلف النوع خدمات انجام دیتے ہیں۔

گ۔

Comments

  1. Sir bo sheli Mazmoon ۔مہ خیالہ ہم سب کو کوشش کرنی کہ ایسے پیشہ وروں کی ہمت افزائی کی جاءے ۔۔

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی