کرپشن



عادت بد مثل خار راہ

حضرت جلال الدین رومی  رحمت اللہ علیہ مثنوی میں فرماتے ہیں کہ بری عادت کی مثال سڑک کے اوپر اگنے والی جنگلی کانٹے دار جھاڑی کی ہے جو ہر راہ چلنے والے سے الجھ جاتی ہے اور اس کے کپڑے پھاڑ دیتی ہے۔ اس کے پاوں کو لہولہان کرتی رہتی ہے۔ اسے اگر اگنے کے کچھ عرصہ بعد تک اکھاڑلیا جائے تو اسانی کے ساتھ اسے راستے سے ہٹایا جاسکتا ہے کیوں کہ اسکی جڑیں کمزور ہوتی ہیں۔۔ اگر کل پرسوں پر چھوڑ دیا جائے تو ہر گزرے دن کے ساتھ وہ مضبوط اور توانا ہوتی جائے گی اور اس کا اکھاڑنے والا بوڑھا اور کمزور ہوتا جائیگا اور اسے اکھاڑنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جائے گا۔ لہذا جتنی جلدی ہوسکے اس کانٹے کو اس کی پیدائش کے شروع ہی میں  اکھاڑ پھینک دینا عقلمندی ہے۔
بری عادتوں کی بڑی لمبی فہرست ہے جن سے ہر کوئی صاحب شعور انسان باخبر ہے۔ میں ان کی تفصیل مین نہیں جاوں گا۔ میری اپنی کئی بری عادتیں تھیں۔ ان میں کچھ کو تو ان کی پختگی سے پہلے چھوڑنے میں کامیاب ہوا جبکہ ایک عادت ایسی رہ گئی جس کی عمر پچاس سال کی ہوگئی اور بقول رومی رحمت اللہ علیہ  میری راہ میں اگا ہوا یہ کانٹا تناور درخت بن گیا اور میری صحت کی دھجیاں اڑانے لگی۔ ہاضمہ ہر وقت خراب رہنے لگا۔ دل کی حرکت میں بے ترتیبی آنے لگی۔ چند قدم پیدل چلنے سے دمہ ہونے لگا۔ ہضمے کی خرابی کے باعث بہت سی صحت مند خوراک مجھ سے چھوٹ گئیں۔ بلڈ پریشر خطرے کی حد تک کم ہونے لگا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ اس بری عادت سے گلو خلاصی ناممکن ہے اور یہ میری جان لے کر ہی چھوٹ جائے گی۔ اپنی راہ یہ عادت تمباکو نوشی کی تھی جو 1965 سے میرے منہ کو لگی تھی جب میں نویں جماعت ب کا طالب علم تھا۔ 1985 میں جونڈیس کی بیماری میں مبتلا ہوا۔ کوئی چھ مہینے تک بیمار رہنے کے دوران میں نے پہلی مرتبہ تمباکو نوشی چھوڑ دی۔  کوئی ڈیڑھ سال بعد پھر سے سگریٹ پینا شروع کیا۔ اس کے کوئی دس سال بعد میں جب ٹائفائڈ کی گندھی بیماری کا شکار ہوا تو خود بخود سگریٹ نوشی چھُٹ گئی اور میں خوش ہوا۔ یہ عرصہ کوئی ڈھائی سال کا رہا۔ اب تیسری مرتبہ پھر سے سگریٹ کے ساتھ دوستی گانٹھ لی۔ ہر دفعہ اپنے پرانے دوستوں کی محفل میں بیٹھ کر دوبارہ سگریٹ پینا شروع کیا اور اس عزم کے ساتھ کہ بھئی ایک دفعہ پینے سے کیا فرق پڑے گا۔ مگر ایسا فرق پڑا کہ پہلے اگر 24 گھنٹے کے دوران دس سگریٹ پیتا تھا تو دوبارہ شروع کے ساتھ یہ تعداد بیس تک پہنچ گئی اور تیسری مرتبہ جب ایک دو کش لگانےکا شوق ہوا تو بیس سگریٹ کی پیکیٹ کم پڑ گئی اور ہر آنے دن تعداد بڑھتی گئی یہاں تک جان کو خطرہ محسوس ہونے لگا۔ یہ احساس میری ڈاکٹر بچیوں کو کچھ زیادہ گھمبیر نظر آنے لگی تو وہ کسی نہ کسی طرح مجحے پھر امادہ کرنے کی کوششیں جاری رکھیں حتا کہ30 جون 2015 کو آخری مرتبہ پکا ارادے کے ساتھ سگریٹ نوشی سے توبہ کیا جب مجھے کوئی دوسری بیماری لاحق نہ تھی۔  مجھے سگریٹ نوشی کے اس تناور خاردار درخت کو اکھاڑنے میں بڑی زورآزمائی کرنا پڑی۔ الحمداللہ کہ کامیاب ہوا۔  انسان ارادہ کرے تو مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ میری سٹوری پڑھنے کے بعد مجھے امید ہے کہ میرے نوجوان، جوان اور ہمعمر دوست جو خدا ناخواستہ کسی بھی بری عادت میں مبتلا ہوں اس سے چھٹکارہ پانے کا پختہ ارادہ کریں گے اور کامیاب بھی ہوں گے۔ انشا اللہ۔    

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی