۔
کرپشن   Corruptiuon
یہ لفظ ہمارے ملک میں اتنا عام ہوگیا ہے کہ ملک کے انتہائی شمالی وادی بروغل کی ایک ووخک بوڑھی اماں بھی اسے استعمال کرتی ہے، البتہ اس کے ذہن میں کرپشن کے معنی رشوت ستانی اور دوسرے ناجائز طریقوں سے پیسہ بٹورنے تک محدود ہے۔ در حقیقت یہ لفظ بہت وسیع معنوں میں استعمال ہوتا ہے یعنی بدعنوانی، سیاہ کاری،بد چلنی، بداخلاقی، خرابی، گندگی ۔ مختصر معنوں میں کسی بھی قسم کا عمل جو رائج الوقت قوانین اور اخلاقی ضابطوں کے خلاف ہو کرپشن کہلاتا ہے۔ اسلام میں جملہ منکرات کرپشن کے زمرے میں اتے ہیں۔  بعض اعمال شدید بری نوعیت کے ہوتے ہیں اور کچھ ذرا ہلکے اثر کے ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر رشوت خوری، سوت خوری، جوا بازی، ڈاکہ چوری، زنا کاری، لواطت، قتل و غارت، جغل سازی، بہتان تراشی، غیبت ، فسادکاری، جھوٹی گواہی وغیرہ سب کے سب شدید قسم کی کرپشن میں شمار ہوتے ہیں ۔اگر ایک استاد اپنی کلاس میں چند منٹ دیر سے جاتا ہے یا چند منٹ وقت سے پہلے کلاس چھوڑ دیتا ہے یا کلاس مقررہ وقت تک نہیں پڑھاتا ہے تو وہ بھی  کرپشن کر رہا ہوتا ہے اور قابل مواخذہ ہے۔ بالکل اسی طرح  ایک ممتحن امتحان کے رائج قوانین و ضوابط سے انحراف کرتا ہے، امیدواروں کی نقل کو نظر انداز کرتا ہے تو وہ بھی کرپشن کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی افسر اپنے ماتحتوں کے کام درست مانیٹر نہیں کرتا ہے وہ بھی کرپشن کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ اگر کوئی ڈاکٹر مریض کو پوری توجہ سے نہیں دیکھتا یا ڈیوٹی کے دوران مریض کو انتظار میں بٹھا کر فون پر گپیں مارتا رہتا ہے یا مہمان کو انٹرٹین کرتا ہے تو وہ بھی کرپشن کررہا ہوتا ہے۔
شعبہ طب اور تعلیم کا میں خصوصی ذکر اس لیے کر رہا ہوں کہ یہ دونوں شعبے تمام دوسرے شعبوں سے مقدس ہیں۔ جس طرح ایک سفید لباس پر معمولی داغ بھی واضح دکھائَی دیتا ہے اسی طرح ان شعبوں سے تعلق رکھنے والوں کی معمولی غلط حرکت بھی بہت بڑی نظر آتی ہے۔ زندگی کے جملہ شعبوں میں اس قسم کے اعمال بد جن کی تفصیل لمبی ہے تمام کرپشن کے زمرے میں آتے ہیں۔ ملازمین چاہے سرکاری ہوں یا پرئیویٹ اداروں سے تعلق رکھتے ہوں کسی نہ کسی طرح سے کرپشن کا ارتکاب کرتے رہتے  ہیں اور اسے ناجائز خیال نہیں کرتے۔ اپنے فراٴض منصبی کی ادائیگی سستی اور کام چوری کے علاوہ ایک بڑی کرپشن ڈیوٹی سے غیرحاضری کو بیماری ظاہر کرنا ہے یا عدالت کی حاضری سے استثنیِ حاصل کرنے کے لیے اپنے آپ کو بیمار ظاہر کرنا ہے اور اس ناجائز کام کو جائز بنانے کے لیے ڈاکٹر صاحبان کی خدمات حاصل کرنا ہے۔ ایسے ملازمین اور عدالت کو مطلوب افراد  کو  جعلی میڈیکل سرٹفیکیٹ جاری کرکے معالجیں بھی  اس کرپشن میں خود کو ملوث کرتے ہیں۔ اس جعلی سرٹفیکیٹ کو لے کر وہ ملازم یا عدالت میں حاضری کا طپابند شخص نہ صرف  جھوٹ بول کر اپنی عاقبت خراب کرتا ہے  بلکہ ایک ملازم  میڈیکل بلز کے نام پر گورنمنٹ کے خزانے سے حرام رقم بھی وصولتا ہے اور عدالت کو مطلوب شخص انصاف کی راہ میں حائل ہوتا ہے۔۔  
حال ہی میں ایک خاتون میڈیکل افسر نے راقم الحروف کو بتایا کہ ایک دن ایک صاحب ایک سرکاری ہسپتال کے اندر ان کے کلینک میں آیا  اور مختلف حوالوں سے رشتہ ظاہر کرکے اپنی بیگم کے لیے سرکاری ہسپتال میں جعلی ایڈمیشن اور ڈسچارچ سرٹفیکیٹ طلب کیا۔ چونکہ اس کی بیوی زچگی کے کیس میں ایک پرئیویٹ ہسپتال میں بھرتی ہوئی تھی جہاں اسے کافی موٹی رقم ادا کرنا پڑی تھی۔ اب اس رقم کو کلیم کرنے کے لیے اسے سرکاری ہسپتال کے متعلقہ ڈاکٹر کا سرٹفیکیٹ چاہیے تھا۔ جب میڈیکل افسر نے یہ ناجائز کام کرنے سے صاف انکار کیا تو وہ مایوس ہوکر اس وقت تو چلا گیا البتہ اس آدمی نے دو چار دن بعد نامعلوم فون نمبر کے ذریعے مذکورہ ڈاکٹرکو  مسیج بھیجا جس میں اس نے اس میڈیکل افسر کو دھمکی دی کہ وہ  یعنی متعلقہ ڈاکٹر اپنے فرض منصبی سے کوتاہی کرتی ہے۔ درست ڈیوٹی نہیں دیتی۔ مریضوں کے ساتھ بدسلوکی کرتی ہے۔ لہذا مسیج کرنے والا اس کے خلاف اخبار میں مضمون شائع کرائے گا۔ اب لیڈی ڈاکٹر نے جب وہ نمبر ٹریس کرائی تو پتہ چلا کہ دھمکی دینے والا اور کوئی نہیں بلکہ وہی شخص تھا جس نے چند دن پہلے اپنی بیوی کے لیے جعلی سرٹفیکیٹ کا تقا ضا کیا تھا۔ اب وہ دھونس دھمکی کے ذریعے لیڈی ڈاکٹر کو ڈرا کر اس سے سرٹفیکیٹ حاصل کرنے کی حماقت کر رہا تھا۔ جب ڈاکٹر نے اس کے ساتھ قانونی کاروائی کا کہا تو گڑگڑاکر معافی مانگی اور اپنی جان چھڑائی۔
میں جس زمانے میں سرکاری عہدے پر کام کر رہا تھا تو اس قسم کے جعلی سرٹفیکیٹ کے ساتھ واسطہ پڑتا تھا۔ اس لیے میں عمومی طور پر سیکنڈ میڈیکل اوپینین  لیا کرتا تھا تو اکثر سرٹفیکیٹ بوگس ثابت ہوتے تھے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس قسم کے سرٹفیکیٹ سے انکار پر بیسیوں سفارشیں آتی ہیں اور انہیں بھی رد کرنے کی صورت میں عزیز رشتے دار سب ناراض ہو جاتے ہیں۔ گویا ہمارے اس سادہ معاشرے میں بھی جعلی سرٹفیکیٹ یا بلیں پیش کرنا ایک جائز عمل متصور ہوچکا ہے جس طرح امتحانات میں نقل کرنے کو طالب العلم اور اس کے والدین اپنا حق حلال سمجھنے لگے ہیں۔۔ اسی طرح زندگی کے ہر شعبے میں اس قسم کی کرپشن عام ہے۔ دکاندار کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ سو روپے کی چیز پانج سو روپے میں بیچے۔ تول میں کمی بیشی کرے۔ ملاوٹ کرکے وزن بڑھائے۔ اصلی چیز دکھاکر نقلی فروخت کرے۔ٹیکسی ڈرائیور مقررہ کرایے کا دوگنا وصول کرے، ایک سواری کی نشست پر دو دو بندے بٹھائے۔ مزدور آٹھ گھنٹے کاکام سولہ گھنٹے میں کرے، ایک کاشتکار دوسرے کاشتکار کا پانی چرائے وغیرہ وغیرہ قسم کی بدعنوانیاں سوسائیٹی کے نچلے طبقے سے لے کر اوپر تک چل رہی ہیں اور جائز سمجھی جاتی ہیں۔ حرام چیز چھوٹی ہو یا بڑی حرام ہی ہوتی ہے۔ اگر تھوڑے حرام کو حرام نہ سمجھا جائے تو بڑا سا حرام بھی حرام نہیں لگتا۔ اس لیےمعاشرے کے جو افراد اپنی سوسائیٹی کو بدعنونیوں سے پاک کرنا چاہتے ہیں انہیں زبانی اور عملی طور پر معاشرے کے اس ناسور کے خلاف جہاد جاری رکھنا چاہیے۔ خاص کرکے مذہبی رہنماوں کو چاہیے کہ وہ اپنے وعظ نصیحتوں میں اس قسم کی خرابیوں کو موضوع بناکر تبلیغ کریں۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی