جمہوری طرز عمل کا فقدان
جمہوری طرزعمل جمہوری روایات کی پاسداری سے ہی جمہوریت پروان چڑھتی ہے۔ ہم جس زمانے میں اسلامیہ کالج پشاور میں پڑھتے تھے یہ دور فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا تھا۔ ہمارے کالج کی طلبہ یونین "خیبر یونین" طلبا کی جمہوری طرز حکومت کی تربیت گاہ تھی۔ باقاعدہ انتخابات ہواکرتے اور قائدحزب اقتدار اور اختلاف منتخب ہوا کرتے۔ کابینہ بنتی اور ایوان کی کاروائیاں۔انجام پایا کرتیں۔ خیبر یونین ھال میں قائد حزب اقتدار اور حزب مخالف کی تقاریر کے دوران مخالفیں ہوٹنگ بھی کیا کرتے اور ایوان میں شورشرابہ عام سی بات تھی۔ میں ذاتی طور پر اس شور شرابے کا خلاف تھا اور ایک دوسرے کے موقف کو سننے اور پھر مدلل جواب دینے کے حق میں ہوتا تھا لیکن ہماری بات کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا تھا؟ اس لیے میں اورامجھ جیسے موقف رکھنے والے طلبا خیبر یونین ھال سے نکل کر ہوسٹل میں سستانے ترجیح دیا کرتے۔اس زمانے سے میرے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ شاید ایک دوسرے کی باتیں نہ سننے دینا اور اسمبلی ھال میں شور شرابہ کرنا ہی جمہوری طرزعمل ہے۔ اس قسم کی جمیوریت سے نفرت سی پیدا ہوگئی تھ...