اس قوم کا خدا حافظ


اس قوم کا خدا ہی حافظ ہو

 میں انہتر سال کا شہری ہوں ۔ میں نے جس حیثیت میں  قوم کی اپنی سطح کی خدمت کی ہے اس کا ذکر نہیں کرتا۔ ایک سینئیر سٹیزن ہونے کی حیثیت سے میں  اپنی ذمے داریاں بھی سمجھتا ہوں اور اپنے حقوق سے بھی واقفیت رکھتا ہوں۔ کبیرسنی اپنے ساتھ کمزوریاں اور بیماریاں لاتی رہتی ہے۔اس لیے ہم سردیوں میں گرم رہنے اور علاج معالجے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ حسب معمول دسمبر ۲۰۱۷ کے نصف آخر میں لغل آباد یارخون سے نکلا ہوں اور تا حال کراچی میں ہی ہوں۔ ایک طرف چترال میں بہار  کی رعناٴیاں دل کھینچ رہی ہیں تو دوسری  طرف صحت کی مجبوریاں پاوں میں بیڑیاں بن گئی ہیں۔ چترال سے دور  جسمانی سہولیات ملتی ہیں الحمداللہ، مگر ذہنی سکون نایاب ہے ۔دل بیتاب ہے کہ جلد از جلد کمر بازو کی فیزئیو تھراپی  کے دن پورے ہوں تاکہ چترال کی بہار کا لطف اٹھا سکوں ۔
گزشتہ دو ہفتوں سے میں اور میری اہلیہ عالمگیر ویلفیر ٹرسٹ ہسپتال بہادر آباد کراچی کے شعبہ فیزیوتھراپی میں آوٹ ڈور پیشینٹ ہیں۔ کل اتوار چھٹی تھی۔ آج جب گحر سے نکل کر مین روڈ پر آئے تو پتہ چلا کہ کراچی نیشنل سٹیڈئیم میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ اس لیے سٹیڈئیم بکے ارد گرد ساری سڑکین بند کردی گئی  ہم نے سوچا کہ بہادرآباد کو موڑنے کے بعد سڑک آزاد ہوگی۔ اس لیے پانج منٹ کا سفر پچیس منٹ میں طے کرکے جب مطلوبہ موڑ پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ بڑی بڑی کنٹینر رکھ کر سڑک سیل کردی گئی ہے اور ساتھ پولیس کے سپاہی بھی حفاظت کے لیے مامور ہیں۔ اب ہمیں واپس آنے کے سوا چارہ ہی نہ تھا جس کے لیے مزید دیڑھ دو کلومیٹر آگے جنوب کی طرف سفر کرنے کے بعد ہمیں یو ٹرن   ہم ان پجیس منٹ کے سفر کے دوران اس ملک کے حکمرانوں پر کتنی لغنتیں بھیجِیں اس کا مجھے اندازہ نہیں البتہ اس قوم کے مستقبل کا سوچ کر رونگٹھے 
کھڑے ہوگئے۔
جس ٹریفک میں میں پھنس گیا تھا اس میں ہزاروں طلبا تھے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں سے لوٹ رہے تھے۔لاکھوں مزدورو تھے جو یا کام سے آرہے تھے یا جارہے تھے۔ ہزاروں مجھ سے بھی زیادہ مجبور بیمار تھے جو آغاخان یونیورسٹی اور لیاقت نیشنل ہسپتال کی طرف جانے کا راستہ نہیں پا رہے تھے۔ گویا شرقی کراچی کا دل بند کیا گیا تھا۔آج ہزاروں ریڑھی چلانے والے محنت کش بے روزگار ہوگئے تھے ۔ نیشنل سٹیڈئیم کے گرداگرد زندگی مفلوج کردی گئَی تھی۔کئی ہزار سکیوریٹی کے اہلکار حفاظتی ڈیوٹی پر چاق و چوبند کھڑے تھے اس لیے کہ یہاں  ۲۲ کھلاڑی کرکٹ کھیل رہے تھے جو غریب ممالک کا مذہبی کھیل ہے اور کوئی پچاس ساٹھ ہزار تماشائی اپنا قیمتی وقت اور پیسہ برباد کررہے تھے۔  بیمار جائے جہنم میں۔ مزدور اور غریب طبقے کی ایسی کی تئیسی۔ ملک کے "شرافا" کو مفت کے مزے اڑانے دو۔ پورے ملک کی اگر دو کروڑ آبادی بھی اس سے تفریح پارہی ہو تو باقی بیس کروڑ کو اس سے کیا فائدہ پہنچے گا؟  میٹرک کے بورڈ امتحانات ہو رہیے ہیں یا ہونے والے ہیں۔ اس نازک وقت میں بچوں کے لیے اس قسم کی تفریح کا بندوبست کرنا جو ان کے مستقبل پر بری طرح اثر انداز ہو سکتی ہے، ہماری نوجوان نسل کے ساتھ بدشمنی کے مترادف ہے۔اس کا جواب قوم کو اپنے حکام سے لینا چاہیے۔ جو قوم کھیل کود میں اتنا عرق ہوجائے کہ اسے مجبوروں کی مجبوری اور قومی خسارہ نظر نہ آئے تووہ  اس دور میں ترقی کا خواب کس منہ دیکھ سکتی ہے؟
 کرکٹ کے شائیقین کو میری بات بہت بری لگے گی۔ میں معذرت چاہتا ہوں۔ میری دانست میں کرکٹ نے پاکستان کو جتنا نقصان پہچایا ہے اتنا نقصان اس کے دشمن بھی نہیں پہنچا پائے ہیں۔اگر"کرکٹ کی پوجا" کرنے والے ملک کی ترقی اور مجبور طبقے کی مشکلات کو  اپنے شوق کی تسکین پر قربان کر رہے ہیں تو یہ بے حسی کی انتہا ہے۔ اتنی بے حسی زوال کا پیش خیمہ ہے۔ ہم صرف دعا  کرسکتے ہیں کہ اس قوم کا خدا ہی حافظ و ناصرہو، آمین 

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ