لوڈ شیڈنگ پھر سے شروع

بڑی لمبی مدت تک بجلی سے محرومی کے عذاب میں مبتلا رہنے کے بعد چترال کی آبادی کا کچھ حصہ روشنی کی نعمت سے مستفید ہوگئی ہے۔ان لوگوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ کسی حکومت یا فرد کا ۔  گولین پاور ہاوس سے بجلی ملنے کے بعد چترال والے ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور اپنی اپنی پسندیدہ حکومتوں کے چمچوں کے دعواوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔  اللہ پاک جب انسانوں پر رحم کھاتا ہے اور جو بے شک اللہ کی ایک صفت ہے تو کسی نہ کسی ذریعے سے ان کی مدد فرماتا ہے۔ ہم انسان اصل مہربان کو بھول کر ان ذرائع کا گن گانے لگتے ہیں تو اس کی سزا بھی مل جاتی ہے۔ ہمیں پھر بھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔ کبھی سیلابوں کی صورت میں اور کبھی زلزلوں کی شکل میں ہم پر نازل ہونے والی مصیبتیں ہماری ناشکری کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اللہ کے بعد ان  ملکی اور غیر ملکی تنظیمات یا حکومتوں کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے جو  اپنے ذاتی وسائل کا کچھ  حصہ بطور امداد یا عطیہ ہمارے کسی مسلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیں دیتے ہیں جسے ہم عام طور پر ڈونیشن کہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے خزانے سے ہمیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر جو حصہ ملتا ہے یہ ہرگز ہرگز کسی کا احسان نہیں ہے۔ ہاں ہم ایسی حکومتوں یا ممبران کو بھی کبھی بھولتے نہیں جن کے دور حکومت میں ہمیں یاد رکھا گیا ہو۔ جس کا ثبوت ہماری سیاسی تاریخ ہے۔
آج سے پانج سال پہلے عام انتخابات کے جلسوں میں جناب شہباز شریف نے تین دفعہ مختلف دورانیوں کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ نون حکومت اقتدار میں اکر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہیں کی تو ان کا نام بدل لیا جائے۔ اب ان کا کیا نام رکھیں ؟ اس کا فیصلہ ہونا چاہیے کیونکہ لوڈ شیڈنگ بدستور قائم ہے۔ چترال کی ڈیڑھ دو لاکھ کی آبادی کو ان کی شدید احتجاجی چیخ و پکار کے بعد بجلی دے کر تیس مار خان بن جانا بے شرمی ہوگی۔ سردیوں میں ملک کے جنوبی اور آہم ترین اور سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کا ناغہ نہیں تھا۔ ہم نے سمجھا کہ سندھ میں حکومت نے شاید بجلی کی لوڈشڈنگ پر قابو پالیا ہے۔ وہ خوشفہمی تھی۔ جب سے یہاں گرمی پڑنی شروع ہوئی ہے بجلی کا بلا اطلاع ناغہ بھی شروع ہوا ہے۔ چند روز ایک ایک گھنٹے کا ناغہ تھا۔ پھر دو دو گھنٹے کا ہوا اور کل سے تین گھنٹوں کا ناغہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں درجہ حرارت 30 اور 40 سنٹی گریٹ کے درمیا ن اتار چڑھاو میں ہے۔ آگے آگے کیا ہوگا اللہ جانے۔  
مجھے یہ بھی معلوم نہیں کہ کراچی کے دوسرے حصوں میں بھی لوڈشڈنگ ہے یا صرف اس حصے میں ہے جہاں میری عارضی رہائیش ہے۔ کافی عرصے سے میں سردیاں کراچی میں گزارنے لگا ہوں اور تین چار جگہہوں میں رہ چکا ہوں۔ اس وقت میری رہائیشی کالونی کا نام بڑا ہے لیکن درشن بہت ہی چھوٹا، اس لیے شک ہے کہ لوڈشڈنگ بھی ہماری سیاسی قیادت کی طرح اس مقام کا حصہ ہو۔ فائیو سٹار لگژری اپارٹمنٹس کا نام سن کر منہ میں پانی آیا تھا۔ جب یہاں رہائیش پذیر ہوا تو آہستہ آہستہ اسکی اندرونی حالت اور حقیقت کا پتہ چل گیا۔ یہاں پڑوسی پڑوسی کا خیال نہیں رکھتا۔ متوسط گھرانوں کے بے لگام بچوں کو اس کی گلی کوچوں میں شور شرابہ کرنے کا پورا پورا حق حاصل ہے۔ وہ موٹر سائیکل بغیر ساٴیلنسر فل ریس میں چلا سکتے ہیں۔ کرکٹ اور فٹ بال کھیل سکتے ہیں۔ وہ رات کے دو تین بجے اپنی مرضی کی آوازمنہ سے نکال سکتے ہیں۔ خیر یہ تو بچے ہیں۔ ان کے بڑے بزرگ بھی جب رات کے تیسرے پہر اپنے گھروں کو لوٹتے ہیں تو ہارن بجانا نہیں بھولتے اور گاڑی پارک کرنے کے بعد آپ کی فلیٹ کے سامنے دو چار فل ریس دینا ان کی گاڑی کی صحت کے لیے بے حد ضروری ہے چاہے آپ یا آپ کے گھر کے افراد میٹھی نیند سے ہڑبڑاکر کیوں نہ اٹھ بیٹھیں۔ بچے ڈر کر کیوں نہ رونے لگیں گاڑی کے مالک یا ڈرائیور کی کوئی پرواہ ہی نہیں۔ کالونی کے اندر صفائی کرنے والے روز اپنا کام کرتے ہیں لیکن مکین گندگی پھیلانے میں بازی لے جاتے ہیں۔ گلیوں سے گزرتے ہوئے یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ کہیں گندہ پانی آپ کے سر پر نہ گرادیا جائے۔

ہمارا تجربہ اس سے مختلف تھا۔ کراچی مہذب لوگوں کے شہر کی حیثیت سے مشہور تھا۔ یہاں کی رہائیشی جگہہوں میں ایک پر امن اور پرسکوں زندگی کا تصور تھا۔ کالونی کے اندر سائیلنسر ٹوٹی موٹر سائیکل یا رکشہ کی الودہ فضا نہیں تھی۔ کالونی کے اندر گلی کوچوں میں بچوں کے کھیل کا میدان نہیں ہوتا تھا۔ اوپری منزلوں کا گندہ پانی گلیوں میں نہ گرتا تھا۔ اس نام نہاد "پر تعیش" رہائیشی گھروں سے آباد کالونی میں ہم ہر قسم کی آلودگی کا سامنا کررہے ہیں۔ اس لیے ممکن ہے لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی اس کی ان "خوبیوں" کا حصہ ہو۔ ابھی ابھی کسی نے بتایا کہ دوسری جگہہوں میں ہر ایک گھنٹے کے بعد ایک گھنٹے کے لیے بجلی چلی جاتی ہے۔ ملک کے دوسرے حصوں میں گرمی کے بڑھنے کے ساتھ لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہوتا جائے گا۔ ہم یہ سب بھول کر اپنی نااہل حکومتوں اور بددیانت لیڈروں کو 2018 کے عام انتخابات میں حکومت دلانے کی سر توڑ کوشش میں جھوٹ پر جھوٹ بولے جا رہے ہیں کہ فلان حکومت نے یہ کارنامہ انجام دیا اور فلان نے یہ کیا۔ گویا ملک کی عوام اندھی ہوگئی ہے جو یہ چند بینائی والے ان کو بتا رہے ہیں کہ ملک اتنا ترقی کرچکا ہے۔ اس طرح نہ صرف خود اپنے اوپر اللہ کی لغنت برسارہے ہیں بلکہ ملک کی خاموش اکثریت کو دھوکہ دینے کا جرم بھی کررہے ہیں۔ خدا را سادہ لوح عوام کو گمراہ مت کیجیئے۔ یہ قوم بہت زیادہ فریب میں مبتلا رہ چکی ہے۔ اب اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے اور فیصلہ کرنے کا موقع ملنا چاہیے۔جو سامنے ہے وہ سب کو نظر آرہا ہے۔  ۔

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ