سیاحت دبئی کی

سیاحت دبئی کی       7


 گو کہ ہمارے پاس کافی وقت تھا دبئی، ابو ظہبی اور شارجہ دیکھنے کا، تاہم رہنمائی کا مسلہ تھا۔ ہم چترالی گائیڈ کو ترجیح دے رہے تھے کیونکہ اپنی مادری زبان میں بات چیت کا مزہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ہم نے ان تین دنوں میں دبئی کے کم و بیش سارے آہم مقامات دیکھ چکے اور ساتھ بے حد تھک بھی چکے تھے۔ ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ چوتھا دن آرام کا ہوگا۔  لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک ایسے صاحب کا فون آیا جو مجھے نہیں جانتا تھا اور میری ان سے واقفیت نہیں  تھی۔ البتہ ہم دونوں غائبانہ طور پر ایکدوسرے کے متعلق تھوڑی بہت معلومات رکھتے تھے۔ یہ صاحب حاجی ظفر کݰمی تھے۔ حاجی ظفر ایک سماجی کارکن اور چترال اور اہل چترال کے ساتھ پیار کرنے والے شخصیت ہیں۔  چترال کے اورسیز بھائیوں کی تنظیم کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ بتایا گیا کہ اس وقت اس تنظیم کے دو دھڑے بن چکے ہیں اور حاجی ظفر ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔ یہ بات بعد میں مجھے پتہ چلی ورنہ میں ان کو پھر سے ایک کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا کیونکہ تقسیم سے ان کی طاقت کمزور پڑگئی ہے۔ وہ ماضی قریب میں اورسیز چترالیوں کی اس فلاحی تنظیم کے ذریعے چترال سے تعلق رکھنے والے امتحانات میں پوزیشن ہولڈر طلبہ کو انعامات اور وظائیف بھی دیتے رہے ہیں۔ چترالی ثقافت کی ترقی میں بھی ان کا بڑاکردار ہے۔ چترالی فنکاروں کو دبئی دعوت دے کر وہاں کے چترالیوں کے لیے موسیقی کے پروگراموں کا اہتمام بھی کرتے رہے ہیں۔
حاجی ظفر صاحب نے خواہش ظاہر کی ہم ان کی ضیافت قبول کریں۔ ہم ان کی  پرخلوص دعوت کو نا نہ کہ سکے۔ 25 فروری کو دوپہر کا کھانا ان کی طرف سے تھا۔ جب وہ ہمیں لینے ہمارے ہوٹل پہنچے تو پہلی نظر میں چہرے بشرے سے مولوی لگے۔ مناسب سائز کی سفید داڑھی، سر پر مدرسہ کےطالب والی ٹوپی اور سفید شلوارقمیض میں ملبوس باوقار شخصیت کے مالک حاجی ظفر دلکش آدمی لگے۔ان  کے ساتھ ذرا میانہ قد وہی سفید براق داڑھی چہرے پر سجائے مرنجان و مرنج  دوسرے ساتھی کا تعارف ہوا تو وہ بھی حاجی تھے ۔ نام ظفرالدین اور موڵکھَو کھوتیکان کے لال زادہ نکلے جن کے  خاندان کے ساتھ ہمارے کئی ایک رشتے ہیں۔ اور تیسرا جوان شیر علی شاہ کا تعلق پرئیت سے تھا جوادب کے ساتھ لگاو رکھنے والے اور شاعر ہیں۔ میرے فیس بک دوستوں میں سے ایک پیار کرنے والے جوان ہیں۔ ہمیں ان کی دعوت قبول کرنے کو وقت نہیں ملا جسکا مجھے 
افسوس ہے۔
برج عرب دبئی
حاجی ظفر نے ہمیں ابراہیمی ریستوران میں پرلطف کھانا کھلایا جو ایک پختون کی ملکیت ہے۔ اس نشست میں سماجی اور سیاسی موضوعات پر گفتگو ہوئی۔حاجی صاحب اس بات پر بے حد افسوس کر رہے تھے کہ وہ ڈاکٹر قیوم صاحب اور ان کی اہلیہ کے دورہ دبئی سے لا علم رہے اور ان کے ساتھ  بیٹھنا نصیب نہیں ہوا۔ ڈاکٹر موصوف نے کچھ عرصہ پہلے دبئی کی سیر کی تھی۔ معلوم پڑا کہ حاجی صاحب بڑے مہمان نواز آدمی ہیں اور کسی بھی آہم چترالی شخصیت کو دعوت کھلائے بغیر  اور تحفہ دیے بغیرجانے نہیں دیتے۔ کھانے کے  بعد ہمیں برج عرب  کی  باہر سے سیر بھی کرائی۔ برج عرب دنیا کا تیسرا اونچا اور پہلا پر تعیش ہوٹل مانا جاتا ہے جس کی اُنچائی برج خلیفہ سےکم ہے البتہ اپنی چند خصوصیات کے لحاظ سے  یہ ایک منفرد عمارت ہے ۔ یہ ایک مصنوعی جزیرے پر تعمیر ہوا ہے۔ جس کی  آخری منزل کی چھت پر کرکٹ گراونڈ قائم ہے۔ نیز اس کے ساتھ جڑی ہوئی ہیلی پیڈ بھی ہے جو دور سے  فرائی پین جیسا لگتا ہے 

دنیا کے چند  بڑے پیسے والے لوگ ہی اس ہوٹل میں ٹھہر سکتے ہیں۔ ہم جیسے لوگ اس کے اندر جھانک بھی نہیں سکتے۔ کیا کوئی یقین کرسکتا ہے کہ اس ہوٹل کی سوئیٹ کے ایک دن کا کرایہ 24ہزار آمریکی ڈالر ہے۔
مجھے اس بات کا بے حد افسوس ہوا کہ اس دولت مند اسلامی ملک کے اندر کوئی بڑا تعلیمی ادارہ نظر نہیں آیا۔ باہر سے آنے والے سیاحوں کے لیے سامان تعیش کی فراوانی ہے اور دولت سمیٹنے کے نوع بنوع طریقے ڈھونڈھ نکالے گئے ہیں البتہ علم و فن میں ترقی کا کوئی ادارہ دکھائی نہیں دیا۔ عوام مالی لحاظ سے خوشحال ہیں لیکن علم و ہنر کے میدان میں اب بھی پاپیادہ ہی ہیں۔      جاری ہے

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ