میری مرضی

    "بیٹا یا بھائی تم نے یہ غلط کام کیوں کیا؟" 
کوئی بھی بزرگ مرد یا عورت اپنے سے کم عمرغلط کار سے کچھ اس طرح 
 کا سوال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ حق مذہب انسانیت نے اسے دے رکھا ہے۔  جواب میں اگر اس برخوردار کی طرف سے اس طرح کا جواب آجائے" میری مرضی" تو اس بچے کو گستاخ کا نام دیا جائے گا۔ اگر اس انداز کا جواب والدیں کی سرزنش پر بچوں کی طرف سے آجائے تو ہماری کھوار میں اسے "نابہل" یعنی نافرمان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ در حقیقت مرضی کس کی بھی نہیں ہوتی۔ اس دنیا میں آنا کب ہماری مرضی کے مطابق تھا یا ہے۔ یہ تو کلی طور پر خالق کی مرضی تھی اور ہے اور رہے گا۔ دنیا میں آنے کے بعد خوشقسمت بچہ اپنے رونے دھونے اور دھونس دھمکی کے ذریعے اپنی مرضی منوانے کے طریقے وقت کے ساتھ سیکھ جاتا ہے۔ چار پانج سال کی یہ مختصر بادشاہی اس وقت اختتام پذیر ہوتی ہے جب بچے کو سکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے انسان کی آپنی مرضی دب جاتی ہے اوروں کی مرضی چلنے لگتی ہے۔ ویسے بچپن کے اس چند روزہ آزادی کو بھی بڑھے بزرگ اپنی وقت بے وقت کی ہدایات اور نصیحتوں سے بدمزہ کرتے رہتے ہیں۔ یہ مت کرو، وہ مت کرو، ادھر مت جاو ادھر مت جاو وغیرہ وغیرہ۔ بچیوں کی کبھی اپنی مرضی لڑکپن میں بھی نہیں ہوتی۔ بچے کی اپنی مرضی پر رہنے کا کہا جائے تو بہت کم بچے اپنی مرضی سے سکول جائیں گے۔ اکثریت کھیل کود کو ترجیح دے گی۔ جوانی میں اگر اپنی مرضی چلے تو ساری دنیا کی موج مستیاں کی جاسکتی ہیں۔ 
زندگی جوں جوں آگے بڑھتی جاتی ہے ایک انسان کی آپنی خواہش کی راہ محدود   سے محدود تر ہوتی جاتی ہے۔ جب میں سرکاری ملازمت سے فارع ہوا تھا تو ایسا لگا تھا گویا ایک قید خانے سے نکل گیا ہوں۔ باقی کی زندگی آپنی مرضی سے گزارنے کے خواب دیکھے تھے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ بھی میری خوشفہمی تھی۔ بہت سے لوگ میری بات ماننے کو تیارنہیں ہوں گے۔ ان کے لیے پوری تفصیل کے ساتھ دلیلیں دینی ہوں گی جو ایک نشست میں ممکن نہیں۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے   کہ مجھے اس موضوع پر لکھنے کا  خیال کیوں کر آیا؟ کل میں نے ایک فی البدیہ اور قابل اصلاح شعرفیس بک پرآپ لوڈ کیا تھا۔ گھر سے بیٹے زاہد نے جب خوبانی کے نیم کھلے پھولوں کی تصویر بھیجی تو میرے ذوق بہارا نے کہا کہ خوبانیوں کے پھولوں کے کھلنے کی خبر سے جی چاہا کہ اڑ کر چترال پہنچ جاوں لیکن افسوس کہ اڑ نہیں سکتا اس لیے رونے کو دل کرتا ہے۔ میرے ایک عزیز نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا، جہاز میں بیٹھو تو یہ بھی اڑنا ہی ہے۔ جواب میں میں نے عرض کیا کہ اپنی  مرضی سے ایسا بھی نہیں کرسکتا۔ عصر جدید کے جوانوں کا گمان ہوگا کہ میں ان کی آنٹی کے ہاتھوں اس حال میں ہوں جیسا کہ برخوردارم نور شمس الدین بار بار اپنی حالت زار کا رونا روتے رہتے ہیں۔ حقیقت میں اس دور کا ہر جوان نور شمس الدین ہے لیکن اپنی کمزوری پر پردہ ڈالتے ہیں اور نور شمس الدین دبنگ بول دیتے ہیں۔ کیا  خیال ہے؟ بہت ہی کم مرد مجاہد ہوں گے جو آپنی جورو کے سامنے  آپنی مرضی کی بات کرسکیں۔ شادی خانہ آبادی کے بعد اپنی  "بیچاری"مرضی کا زوال شروع ہوجاتا ہے۔ بچوں کے دنیا میں آنے کے بعد آپنی مرضی دس بیس فیصد رہ جاتی ہے اور جب پوتے پوتیاں اور نواسے نویسیاں  شامل زندگی ہو جاتے ہیں تب  یہ اپنی مرضی  صفر رہ جاتی ہے۔ اس بات کا ایک تازہ تازہ ثبوت اسی وقت پیش کرنا چاہوں گا۔
جب میں نے یہ مضمون لکھنے کا ارادہ کیا اور کمپیوٹر کھول کر گود میں رکھا ہی تھا کہ کہ میری بچی ڈاکٹر سرنگ کا بچہ ہادی محمد غوث جس کی عمر 14مہینے کی ہےاپنی واکر چلاتے ہوئے میرے کمرے میں گھس آیا اور پاس آکر اشاروں سے کہنے لگا  " ذرا میرے لیے میری مرضی کے کارٹوں پروگرام کھول لیجیئے  ورنہ میں ہنگامہ کروں گا" مجھے اس کے سامنے اپنی مرضی سے دستبردار ہونا پڑا اور پورا ایک گھنٹے تک میں اس کے ساتھ بیٹھ کر کارٹوں دیکھتا رہا۔  

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ