Posts

انتقال غم آگین

سلطان روم لال چارویلاندہ بونی کی وفات ان کے عزیز و اقارب، دوست احباب اور علاقے کے عوام کے لیے بہت بڑا سانحہ ہے۔ عمر کے لحاظ کافی عمر رسیدہ تھے تاہم دور حاضر میں لمبی عمر پانے کی مثالوں کو دیکھتے ہوئے سلطان روم بھائی ابھی جوان تھے۔ ان کا دل جوان تھا۔ ان کا مزاح ، ان کی ہر لطف گفتگو ابھی جوان تھی۔ ان کی قامت میں کوئی کمی نظر نہیں آ رہی تھی۔ حاضر جوابی اور بے لاگ انداز گفتگو جوانوں جیسے تھی۔ ان کی رحلت اس لحاظ سے بڑا سانحہ ہے۔ انہوں نے بھر پور اور شاندار زندگی گزاری۔ ان کی بے لوث محبت کی داستانیں ژندہ رہیں گی۔ 1966 سے سلطان روم بھائی کے ساتھ دوستی اور برادری کا رشتہ قائم تھا۔ ان کی دوستی اور محبت میں کوئی فرق نہیں آیا ۔ سلطان روم اسم با مسمی تھے۔ ان کی کمی پوری نہیں ہوسکتی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور دعاگو ہوں کہ رب العالمین اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طفیل سلطان روم بھائی کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین!

دروغ گو را حافظہ نہ باشد

فارسی زبان کو اگر اردو کی زینت قرار دی جائے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ فارسی بولنے والے ادباء، شعراء اور دانشوروں کی فہرست بھی کافی لمبی ہے۔ ان کے نگارشات اور فرمودات آج بھی ہماری تقریرو تحریر کو زینت بخشنے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے بہترین دینی اور دنیاوی رہنمائی کا خزانہ ہیں۔ آج جب ہم اپنے محترم سیاسی رہنماؤں کی باتیں سنتے ہیں تو فارسی کا یہ مقولہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ واقعی جھوٹ بولنے والے کے پاس قوت حافظہ نہیں ہوتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ لوگ یا تو اپنے سامعین کو حافظے اور عقل سے کورے سمجھتے ہیں کہ ان کے دماغ میں کسی بات کو یاد رکھنے کی صلاحیت بالکل بھی نہیں ہے۔ کوئی بات چاہے جتنی اہمیت کی کیوں نہ ہو انہیں یاد نہیں رہتی یا یہ خود اس صلاحیت سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ گویا ہم ایسے لوگوں کو اپنا حکمراں چنتے ہیں جو قوت حافظہ سے مکمل طور پر محروم ہیں یا وہ ہمیں جانوروں سے بھی کم عقل سمجھتے ہیں۔ دونوں صورتوں میں ہم عوام اور ہمارا ملک خسارے میں ہیں۔ یہ کوئی معمولی خسارہ نہیں بلکہ یہ پاکستان اور اس کے عوام کا مستقبل کا خسارہ ہے۔ ناقابل تلافی خسارہ ہے۔   یہاں ایک اور آہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم ع

کنج عافیت

وادئ یارخون اپنے پرامن اور آلودگی سے پاک ماحول کی بدولت آج بھی جائے سکون ہے۔  چترال کی وادیوں میں سب سے لمبی وادئ جو گاؤں بریپ کے نویشرو سروز سے شروع ہو کر قرمبر جھیل تک پھیلی ہوئی ہے۔ آسانی کے لیے اسے تین وادیوں میں تقسیم کرتے ہیں، یعنی وادئ یارخون پائین جو بریپ سے لے کر گزین تک کا علاقہ ہے۔ یہ کھلی وادی ہے جس کے بیچوں بیچ دریائے یارخون بہتا ہے اور دریا کے دونوں کناروں پر بستیاں آباد ہیں۔پھر دربند سے شروع ہو کر کنخون تک اس وادی کو سویارخون کہتے ہیں۔ کنخون سے قرمبر تک یہ وادئ بروغل ہے۔ تینوں وادیوں کو ملا کر عام طور پر وادئ یارخون کہا جاتا ہے۔اس کی مجموعی لمبائی کم و بیش 130 کلومیٹر ہے۔ پچاس چھوٹے بڑے گاؤنوں پر مشتمل ہے۔ اس کے اندر گرور گول، کھوتن، اوھرکن گول ، بانگ گول، پاور گول، وسم گول، گزین گول، درہء تھوئی، دربند ،اشپیر ڈوک، کوئے زوم، چٹی بوئے گلیشر، درہء درکوت، درکوت گلیشیر ، چیانتر گلیشیر ،درہ بروغل اور قرمبر جھیل قابل دید جگہے ہیں اور ٹریکنگ کے شائقین کے لیے دلکشی کا سامان رکھتی ہیں۔ ماضی میں یہاں سیاحوں کا تانتا بندھ جاتا تھا۔ غیر ملکی سیاح یارخون کو سیاحت کے لیے ترجیح دیتے تھے