چترال کی چلتی پھرتی تاریخ

بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی قوت حافظ سے نوازا ہے۔ قدیم زمانے کے لوگوں کا حافظہ مضبوط تھا۔ اس کی ایک وجہ لکھت پڑھت کا نہ ہونا تھی۔لوگوں کو اپنا شجرہ نسب، بزرگوں کے اقوال اور نصیحتیں سب کچھ اپنے حافظے میں محفوظ کرنا ہوتا تھا۔ جب تعلیم کا رواج ہوا تو حافظ پر بوجھ ہلکا ہو گیا۔ لوگ اپنی یادداشتیں کاغذ کے سپرد کرنے لگے۔ یہاں سے قوت حافظہ کی کمزوری کا آغاز ہوا۔ آج ہم جب کچھ پرانا واقعہ کسی کو سناتے ہیں تو وہ حیرانگی کا اظہار کرتا ہے کہ آپ نے یہ کیسے یاد رکھا حالانکہ اپنے ہم عصروں میں میں ہی سب سے کمزور حافظے کا مالک ہوں۔ میرے ہم عمر دوست احباب میں مرحوم گل مراد خان حسرت اور بلبل ولی خان بلبل بلا کا حافظہ رکھتے تھے مگر افسوس یہ ہے کہ انہوں نے اپنی یادداشت تحریری طور پر محفوظ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر عنایت الله فیضی کو بھی خداوند تعالیٰ نے مضبوط حافظ کی نعمت سے نوازا ہے اور وہ اس میں محفوظ یاداشت ہمارے ساتھ خوب بانٹ رہے ہیں ۔ اسی طرح ایک اور صاحب اللہ کے فضل و کرم سے حیات ہیں۔ ان کو ہم چترال کی چلتی پھرتی تاریخ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ چترال کی یہ زندہ تاریخ...