زندہ پیر کے مزار پر

حضرت محمد رضائے ولی علیہ رحمۃ چترال کے بہت بڑی روحانی ہستی گزرے ہیں۔ وہ ان گنے چنے اولیاء میں سے ہیں جن کے مزارات مرجع خلائق ہیں ۔ان کی زیارت پر حاضری کا شوق عرصے سے دل میں موجزن تھا۔ اسی نیت سے 8 اکتوبر بروز اتوار  سنوغور پہنچا۔ ایک عرصے بعد اپنے اجداد کی سرزمین پر قدم رکھنے کا موقع ملا۔ 7 اکتوبر کے سہ پہر بونی سے برخوردارم رحمت علی خان اے ڈی ای او نے اپنی گاڑی میں مجھے میراگرام نمبر 2 پہنچایا جہاں ریٹائرڈ اے سی برخوردارم اسرار احمد اور میکی نور سے ملاقات کے بعد صوبیدار میجر (ر) گلاب نظارہ کے گھر تعزیت کے لیے پہنچا۔ چند روز پہلے ان کے برادر کلان صوبیدار (ر) نور فراز خان کا انتقال ہوا تھا۔ اچھا ہوا کہ کائے محترمہ بیوہ دینار ولی تاج آف پاسم (ہمشیرہ متوفی) بھی موجود تھیں۔ فاتحہ خوانی کے بعد ایک ایک کپ چائے پی۔ پھر محترم چارویلو میکی (اسرار احمد کے سسر) کو سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ چارویلو میکی اس وقت 93 برس کے ہو چکے ہیں۔ بفضل خدا پوری طرح ہوش و حواس میں ہیں۔ ان کے ساتھ ماضی میں کئی نشستیں نصیب ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ مختصر گفتگو کے بعد رخصت لی کیونکہ وقت شام ہونے کو چلا تھا۔
رات اسرار احمد صاحب کے مہمان خانے میں میکی محترم نور نواز خان کی سربراہی میں ایک یادگار نشست ہوئی۔ میکی محترم اس وقت 87 برس کے پیٹے میں ہیں۔ ماشاءاللہ تندرست اور توانا ہیں۔ ستار پر دو تین نغمے بجائے اور گلوکاری کا مظاہرہ کرکے ہمیں بہت محظوظ کیا۔ اللہ پاک ان کی عمر دراز رکھے۔ رات کی محفل میں ہم دو مہمان باقی ماسٹر بشیر احمد (برادر خورد اسرار احمد) جو میری خالہ زاد بہن کے سرتاج بھی ہیں اور اسرار صاحب کے فرزندوں نے ہماری مہمان داری کے فرائض انجام دیے۔
رات پرسکون نیند کے بعد صبح اٹھا تو میراگرام گول کا گلیشئیر سر تا پیر سفید ململ میں ملبوس کسی نوخیز دلہن کی طرح آنکھوں کے سامنے جلوہ افراز تھا۔ واہ ! کیا دلفریب منظر تھا۔ دس پندرہ منٹ تک اس کا نظارہ کیا اور روح و دل کو تر و تازہ کیا۔ پھر بھرپور ناشتہ کیا۔ اس کے بعد دوسرا ناشتہ برخوردارم بشیر کے گھر میں کیا کیونکہ اپنی خالہ زاد بہن سے بھی ملنا تھا۔
دس بجے صبح اسرار صاحب کی گاڑی میں براستہء اشپیر ریشت سنوغور چلے۔ سنوغور گاؤں میں داخل ہوا تو بالکل اجنبی صورت نظر آئی کیونکہ 2007 کے تباہ کن سیلاب نے اس قدیم حسین گاؤں کا نقشہ ہی بدل ڈالا تھا۔ سیلاب زدہ زمین پھر سے آباد ہوچکی ہے البتہ قدیم حسن نظر نہیں آیا۔ 
سب سے پہلے پیر محترم زندہ پیر رح کے مزار پر حاضری دی اور فاتحہ پڑھی۔بہت اچھا لگا کہ پیر کی اولاد نے اپنے جد امجد کے مزار کی مرمت و تزئین کرکے ان کی شان کے مطابق بنانے کی کوشش کی ہیں۔ زیارت کے احاطے کے اندر مدفون ہمارے جد امجد سرنگ اول کی روح کی آسودگی کے لیے غائبانہ دعا پڑی کیونکہ بابا کی قبر زیر زمین چھپ گئی ہے یا چھپا دی گئی ہے۔ ن
مزار پر ہماری ملاقات سادات سنوغور کے بزرگ ترین شخصیت سید شاہ صاحب سے ہوئی جنہوں نے بابا سرنگ کی قبر کی نشاندھی کی۔ ان کے مطابق بابا کی قبر پیر کے مزار کے شمال مغربی حصے میں واقع تھی۔ ہم نے سید شاہ اور معصوم شاہ مجاور زیارت کی وساطت سے مزار کمیٹی کو درخواست بھیجی کی بابا سرنگ کی قبر کی بحالی کے لیے ہمیں اجازت دی جائے۔ انشاء اللہ چند روز میں اجازت مل جائے گی۔
ہماری خاندانی زبانی روایت بتاتی ہے کہ سرنگ بابا پیر محمد رضائے ولی رح کے مرید تھے۔ ایک ساتھ چترال آئے تھے اور سنوغور میں بس گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی وفات سے پہلے پیر کی زیارت کے احاطے میں اپنی جائے مدفن کی نشاندھی کہ تھی اور اس کی وصیت کے مطابق انہیں اسی قبرستان میں دفن کیا گیا تھا۔ آج سے کوئی پینتیس سال پہلے میں جب میں چترال کے آلات موسیقی پر تحقیق کر رہا تھا تو سنوغور میں چند دن گزارے تھے اور اس وقت کے بزرگ لوگوں سے ملا تھا۔ اس موقعے پر پیر کے مقبرے پر حاضری کے دوران سرنگ اول کی قبر کی نشاندھی بھی گئی تھی۔ اس کے بعد پرواک سے گزرتے ہوئے اسی تصور کے ساتھ پیر محترم کے لیے فاتحہ کے ساتھ ساتھ اپنے جد امجد کی مغفرت کی دعائیں کرتا رہا ہوں ۔
زیارت کے بعد جناب سید شاہ صاحب نے بڑے تپاک سے چائے کی دعوت دی جسے ہم نے قبول کیا اور بہت اچھی سی چائے ابلے انڈوں اور پکوڑوں کے ساتھ نوش کیا اور شاہ صاحب سے اجازت لے کر پیر موصوف کے قدیم گھر دیکھنے گئے۔ ان کے فرزند ارجمند سید مقصود شاہ اور سید معصوم شاہ مجاور نے ہماری رہنمائی کی۔ اس تاریخی گھر کو فرسودہ حالت میں پاکر دل کو دکھ ہوا۔ بتایا گیا کہ پیر کا گھر سید ابراہیم شاہ طائر (ڈپٹی سکریٹری فناس ڈیپارٹمنٹ پشاور) کے خاندان کے حصے میں آیا ہے۔ اس کالم کے ذریعے میں طائر صاحب سے زندہ پیر رح کے گھر کی بحالی کی درخواست کرتا ہوں۔
یہاں سے فارغ ہوکر برادر بزرگ اشرف شہید کو ملنے ان کے گھر پہنچے۔ ان کے ساتھ مختصر وقت گزارنے کے بعد
ہم نے دوپہر کا کھانا عزیزم علی رحمان کے گھر میں کھایا اور واپس بونی روانہ ہوگئے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی