کیچ بِک

ہمارے بچپن میں "کیچ بک" (kech bik) بھی ایک اہم مہم ہوا کرتی تھی۔ بہت سے لوگوں کے دو دو مقامات پر زمینات اور رہائشی مکانات ہوتے تھے، ایک سرمائی اور دوسرا گھر گرمائی ہوتا تھا۔ ان گھروں کے مکین و مالک گرمیوں میں زرا ٹھندی جگہوں کی طرف چند مہینوں کے لیے منتقل ہوتے تھے اور گرمیاں ختم ہوتے ہی گرم گھروں کا رخ کرتے تھے۔ اس انتقال مسکن کو کیچ بک کہتے ہیں۔ آج کل بہت کم لوگ اس طرح ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل ہوتے ہیں کیونکہ آبادیاں بڑ گئی اور زمینات کم پڑ گئی ہیں۔  اس لیے لوگ سرد گاونوں میں بھی مستقل رہائش رکھنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ 

کیچ بک ایک مہم ہوا کرتی۔ ہفتوں پہلے نیک ساعت معلوم کرنے کے لیے اس ہنر کے ماہرین سے رجوع کیا جاتا۔ گاؤں کا خلیفہ یا مولوی یا بول حساب (ستارہ شناس) مناسب دن اور وقت کی نشان دہی کرتا۔ پھر گھریلو سامان کی پیکنگ شروع کرتے۔ مجھے ملازمت کے دوران اپنے ہر تبادلے کے وقت یہ قدیم مہم یاد آیا کرتی تھی۔ کیچ بک کے دنوں قافلے کے قافلے ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں کی طرف رواں دواں نظر آتے ۔ ان کے قافلے میں گدھوں اور گھوڑوں پر گھر کا سامان بستر اور گھریلو برتن اور استعمال کی دوسری چیزیں لدی ہوتیں ۔ کچھ سامان خاص کر برتن بڑی بڑی چپٹی ٹوکریوں ( جنہیں بیڑو کہتے ہیں اور جو بید اور سندر کی شاخوں سے خود تیار کرتے تھے) مردوں کی پیٹھوں میں لدے ہوتے۔ بوڑھے مرد خواتین گھوڑوں پر سامان کے اوپر سوار ہوتے اور گھوڑوں کے قدموں کی حرکتوں کے ساتھ جھولتے ہوئے نظر آتے۔ جوان خواتین اور بچے نو زائیدہ ممنیوں کو گود میں اٹھائے بھیڑ بکریوں اور گائیوں کو ہانک رہے ہوتے۔ بعض گھرانوں کے رکھوالے کتے بھی ہوتے جو قافلے کا اہم حصہ ہوا کرتے کیونکہ بھیڑ بکریوں کو منظم رکھنے میں ان کتوں کا بڑا کردار تھا۔ اس کاروان مسافرین کے اندر مختلف آوازوں کی گونج بھی سنائی دیا کرتی۔ کسی نے کتے کو حکم دیا تو کسی نے بکری کی سرزنش کی تو کسی نے بیل گائیوں کو تیز چلنے کی تاکید کی۔ اس عارضی سفر ہجرت کا ایک الگ مزہ ہوتا تھا۔ زمانے کی پسماندگی کے سبب سے لوگوں کے سامان ضرورت محدود ہوتا تھا اس لیے سارا گھریلو سامان کو ایک گھر سے دوسرے گھر منتقل کرنا پڑتا تھا۔
آج اس قسم کے قافلے شاید بالائی چترال اور غذر میں دکھائی دیں۔ ماضی قریب تک غذر کا آخری سرحدی گاؤں بارسیت صرف گرمیوں میں آباد نظر آتا تھا۔ سردیوں میں لوگ واپس تیرو لوٹ جاتے تھے۔ آج کل سردیوں میں بھی یہ گاؤں مکینوں سے خالی نہیں ہوتا ہے۔ یارخون وادی میں ژوپو کے لوگ گرمیوں میں گزین منتقل ہوتے تھے جب کہ بریپ کے رستے قوم کے لوگ گرمیوں میں گرور جاتے تھے۔ چند گھرانے اب بھی اپنے دستور پر قائم ہیں البتہ گدھا گھوڑوں پر سامان لاد کر کے جانے کا رواج ختم ہوگیا ہے کیونکہ لوگ اپنے سرمائی گھروں میں ضرورت کا سامان مستقل طور پر رکھ لیتے ہیں۔
پہلے زمانے میں مال مویشیوں کو سرمائی چراگاہ لے جانے کا رواج  پورا چترال میں عام تھا۔ اسے غار نِسِک کہتے ہیں۔ گاؤں کے کچھ گھرانے عوام کی بھیڑ بکریاوں کو لے کر دو ڈھائی مہینوں کے لیے چراگاہوں میں اپنی جھونپڑیوں میں رہنے کا رواج تھا۔ موجودہ زمانے میں مقامی لوگوں کی جگہہ گجر چرواہے یہ ڈیوٹی انجام دیتے ہیں۔


Comments

  1. انکل آج تک مجھے شندور کی ملےت کا پتہ نہیں چل سکا۔ آپ کی کیا رائے ہے اس میں۔ شندور چترال کا حصہ ہے یا غذر کا؟

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی