Posts

Showing posts from April, 2018

زندگیو ‏سفار ‏6

اسیرو زندگی   6  کھوار راور کھوار نیویشور" تحریکو لوڵی اوا ہموݰ ارادہ اریتم کہ تان شوخڅیرو  زندگیو چھوئے انوسان اچی یادی انگیتی کھوار راکن سم تاریم۔ ہیرہ جو فائدہ بوئے۔ ای ہیہ کہ اسپہ پروشٹی وختو حالت نویشونو بتی تاریخو حصہ ساوز بوئے وا مہ تان زندگیو قف دوغور ݯاکیک ای شلوغ بتی نوغ دورو نسلو کارہ تارور۔ جوو فائدہ ہیہ کہ کھوار نویشیکوچے ریکو ویلٹی اسپہ خیال بیر۔ ہیہ بارا فیس بکہ دی جو کاٹَک نویشی استم کہ اوا تان بلاگہ نویشیم۔ لینکو دی نویشیراوشتم۔ پونج قسطان نویشیکار اچی مت ہاݰ سریران کہ کھوار راور کھوار نیویشور رے ہے لو صرف قلمی نغرہ برائے۔ کھوار راک بو کم یا مہ نویشیرو ویخال بے مزہ کہ دوستانن رارو نو گویَن۔  بہر حال اوا شروعے اسُم۔ ہمو بند نوکوم۔ پیسہ ریتامی یا نو ریتامی ہیس پیسہ چِت۔  سال 1956 ستمبرمسی مہ تت مہ التی بانگو اسکولہ پیستئے۔ استاد محمدشیر مہ پہلیو جماعتہ نِشیتئے۔ ہتے زمانا پہلی جماعتہ عبارت ریک شروع باوور۔ اوا قاعدہ تن نو رے استم عبارتو کیچہ  کوری ریم؟ استاد کیاغ ریر نو ریر حرام بار کہ پتہ دوم۔ ہاݰتانچقہ حسابہ دی مہ ھ حالت تن بہچیتئے۔ زبانی سبقہ گزاران کوکا پھر
لوڈ شیڈنگ پھر سے شروع بڑی لمبی مدت تک بجلی سے محرومی کے عذاب میں مبتلا رہنے کے بعد چترال کی آبادی کا کچھ حصہ روشنی کی نعمت سے مستفید ہوگئی ہے۔ان لوگوں کو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے نہ کہ کسی حکومت یا فرد کا ۔  گولین پاور ہاوس سے بجلی ملنے کے بعد چترال والے ہمارے نام نہاد سیاستدانوں اور اپنی اپنی پسندیدہ حکومتوں کے چمچوں کے دعواوں سے بیزار ہوچکے ہیں۔  اللہ پاک جب انسانوں پر رحم کھاتا ہے اور جو بے شک اللہ کی ایک صفت ہے تو کسی نہ کسی ذریعے سے ان کی مدد فرماتا ہے۔ ہم انسان اصل مہربان کو بھول کر ان ذرائع کا گن گانے لگتے ہیں تو اس کی سزا بھی مل جاتی ہے۔ ہمیں پھر بھی اس کا احساس نہیں ہوتا۔ کبھی سیلابوں کی صورت میں اور کبھی زلزلوں کی شکل میں ہم پر نازل ہونے والی مصیبتیں ہماری ناشکری کا نتیجہ ہیں۔ ہمیں اللہ کے بعد ان  ملکی اور غیر ملکی تنظیمات یا حکومتوں کا شکریہ ضرور ادا کرنا چاہیے جو  اپنے ذاتی وسائل کا کچھ  حصہ بطور امداد یا عطیہ ہمارے کسی مسلے کا حل ڈھونڈنے کے لیے ہمیں دیتے ہیں جسے ہم عام طور پر ڈونیشن کہتے ہیں۔ ہمارے ملک کے خزانے سے ہمیں اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر جو حصہ ملتا ہے

اس قوم کا خدا حافظ

اس قوم کا خدا ہی حافظ ہو  میں انہتر سال کا شہری ہوں ۔ میں نے جس حیثیت میں  قوم کی اپنی سطح کی خدمت کی ہے اس کا ذکر نہیں کرتا۔ ایک سینئیر سٹیزن ہونے کی حیثیت سے میں  اپنی ذمے داریاں بھی سمجھتا ہوں اور اپنے حقوق سے بھی واقفیت رکھتا ہوں۔ کبیرسنی اپنے ساتھ کمزوریاں اور بیماریاں لاتی رہتی ہے۔اس لیے ہم سردیوں میں گرم رہنے اور علاج معالجے کے لیے کراچی کا رخ کرتے ہیں۔ حسب معمول دسمبر ۲۰۱۷ کے نصف آخر میں لغل آباد یارخون سے نکلا ہوں اور تا حال کراچی میں ہی ہوں۔ ایک طرف چترال میں بہار  کی رعناٴیاں دل کھینچ رہی ہیں تو دوسری  طرف صحت کی مجبوریاں پاوں میں بیڑیاں بن گئی ہیں۔ چترال سے دور  جسمانی سہولیات ملتی ہیں الحمداللہ، مگر ذہنی سکون نایاب ہے ۔دل بیتاب ہے کہ جلد از جلد کمر بازو کی فیزئیو تھراپی  کے دن پورے ہوں تاکہ چترال کی بہار کا لطف اٹھا سکوں ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے میں اور میری اہلیہ عالمگیر ویلفیر ٹرسٹ ہسپتال بہادر آباد کراچی کے شعبہ فیزیوتھراپی میں آوٹ ڈور پیشینٹ ہیں۔ کل اتوار چھٹی تھی۔ آج جب گحر سے نکل کر مین روڈ پر آئے تو پتہ چلا کہ کراچی نیشنل سٹیڈئیم میں کرکٹ کھیلی جارہی ہے۔ اس لیے

سیاحت دبئی کی

Image
سیاحت دبئی کی       7  گو کہ ہمارے پاس کافی وقت تھا دبئی، ابو ظہبی اور شارجہ دیکھنے کا، تاہم رہنمائی کا مسلہ تھا۔ ہم چترالی گائیڈ کو ترجیح دے رہے تھے کیونکہ اپنی مادری زبان میں بات چیت کا مزہ کسی دوسری زبان میں نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے ہم نے ان تین دنوں میں دبئی کے کم و بیش سارے آہم مقامات دیکھ چکے اور ساتھ بے حد تھک بھی چکے تھے۔ ہم نے فیصلہ  کیا تھا کہ چوتھا دن آرام کا ہوگا۔  لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ ایک ایسے صاحب کا فون آیا جو مجھے نہیں جانتا تھا اور میری ان سے واقفیت نہیں  تھی۔ البتہ ہم دونوں غائبانہ طور پر ایکدوسرے کے متعلق تھوڑی بہت معلومات رکھتے تھے۔ یہ صاحب حاجی ظفر کݰمی تھے۔ حاجی ظفر ایک سماجی کارکن اور چترال اور اہل چترال کے ساتھ پیار کرنے والے شخصیت ہیں۔  چترال کے اورسیز بھائیوں کی تنظیم کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔ بتایا گیا کہ اس وقت اس تنظیم کے دو دھڑے بن چکے ہیں اور حاجی ظفر ایک دھڑے کے سربراہ ہیں۔ یہ بات بعد میں مجھے پتہ چلی ورنہ میں ان کو پھر سے ایک کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا کیونکہ تقسیم سے ان کی طاقت کمزور پڑگئی ہے۔ وہ ماضی قریب میں اورسیز چترالیوں کی اس فلاحی تنظیم کے ذریعے
میری مرضی     "بیٹا یا بھائی تم نے یہ غلط کام کیوں کیا؟"  کوئی بھی بزرگ مرد یا عورت اپنے سے کم عمرغلط کار سے کچھ اس طرح   کا سوال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ یہ حق مذہب انسانیت نے اسے دے رکھا ہے۔  جواب میں اگر اس برخوردار کی طرف سے اس طرح کا جواب آجائے" میری مرضی" تو اس بچے کو گستاخ کا نام دیا جائے گا۔ اگر اس انداز کا جواب والدیں کی سرزنش پر بچوں کی طرف سے آجائے تو ہماری کھوار میں اسے "نابہل" یعنی نافرمان کہا جاتا ہے۔ کیونکہ در حقیقت مرضی کس کی بھی نہیں ہوتی۔ اس دنیا میں آنا کب ہماری مرضی کے مطابق تھا یا ہے۔ یہ تو کلی طور پر خالق کی مرضی تھی اور ہے اور رہے گا۔ دنیا میں آنے کے بعد خوشقسمت بچہ اپنے رونے دھونے اور دھونس دھمکی کے ذریعے اپنی مرضی منوانے کے طریقے وقت کے ساتھ سیکھ جاتا ہے۔ چار پانج سال کی یہ مختصر بادشاہی اس وقت اختتام پذیر ہوتی ہے جب بچے کو سکول میں داخل کیا جاتا ہے۔ یہاں سے آگے انسان کی آپنی مرضی دب جاتی ہے اوروں کی مرضی چلنے لگتی ہے۔ ویسے بچپن کے اس چند روزہ آزادی کو بھی بڑھے بزرگ اپنی وقت بے وقت کی ہدایات اور نصیحتوں سے بدمزہ کرتے رہتے ہیں۔ ی