موروثی سیاسی قیادت

 ملکِ عزیز میں جمہوریت کے نام پر جو وراثتی سیاسی نظام چل رہا ہے یہ تشویشناک حد تک جمہور دشمن  ہے۔ یہ ایک بدبودار گلا سڑاطرز حکومت ہے  جسے جمہوریت کا نام دینا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ان بانی تجربے کار سیاست دانوں پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے چند خاندانوں کی نا اہل اولاد کو اپنی پارٹیوں کے سربراہ کے طور پر قبول کیے ہوئے ہیں۔ 

جمہوریت میں سب سے پہلے سیاسی پارٹی جمہوری ہونی چاہیے جو مقررہ وقت پر صاف ستھرے چناو کے ذریعے پارٹی سربراہ اور معتمد خاص منتخب کرے اور جس کے کابینہ ممبران کو مشاورت اور فیصلوں کا مساوی حق حاصل ہو۔ پارٹی اور اس کے فیصلوں پر فرد واحد کی اجارہ داری نہ ہو۔  گاؤں کی سطح سے لے کر مرکز تک ہر سیاسی جماعت کی قیادت منتخب رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہو تب وہ جمہوری پارٹی کہلائے گی۔ بدقسمتی یا اپنے عوام کی جہالت کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیوں کی سربراہی وراثت کے طور پر منتقل ہوتی رہی ہے۔ پارٹی کا سربراہ  پارٹی میں سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ سارے فیصلے ایک آدمی کرتا ہے چاہے وہ سیاسی میدان میں اناڑی ہی کیوں نہ ہو، چاہے ملک کی عدالتوں نے اسے نااہل قرار کیوں نہ دی ہو۔ چاہے وہ ملک سے فرار کیوں نہ ہوا ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا۔اسی نظام کے تحت اکثریت کے ووٹ حاصل کرنے والی پارٹی کا سربراہ ملک کا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ یوں ملکی قیادت ناہل لوگوں کے ہاتھوں میں آجاتی ہے۔ جمہوریت کا یہ ماڈل مطلق العنانیت کی بدترین مثال پیش کرتا ہے جس میں چند خاندان باری باری ملک پر مسلط رہتے ہیں۔ پارٹی میں موجود باصلاحیت مخلص رہنماؤں کو ملک کی بہتر خدمت کا موقع نہیں دیا جاتا۔

پارٹیوں میں منجھے ہوئے سیاست دان موجود ہوتے ہوئے  ناتجربہ کار لوگ ملک کے کلیدی عہدوں پر براجمان ہو جائیں تو اس ملک کی بربادی یقینی ہے۔ آج پاکستان جس معاشی، سیاسی اور اخلاقی بحران سے گزر رہا ہے اس کی زیادہ تر ذمے داری اس نا اہل موروثی قیادت پر عائد ہوتی ہے۔ ان کے ساتھ ساتھ ملک کو تباہی کے دہانے پہنچانے میں ملک کے سنئیر سیاست دان بھی شریک جرم ہیں جو اس قسم کی جمہوریت کو قبول کرتے ہوئے اس نظام کا حصہ بن بیٹھتے ہیں۔ ہمیں یہ دیکھ کر شرم آتی ہے کہ ایک ستر پچھتر سال کا بزرگ سیاست دان ایک ناتجربہ کار صدر پارٹی کے ماتحت اس کے احکامات پر ایک زرخرید غلام کی طرح عمل کرتا ہے۔ اس کی اپنی رائے نہیں ہوتی۔ خود سوچیے کیا اس طرح ملک میں درست سیاسی کلچر پروان چڑ سکتا ہے؟ کیا ہم مملکت کے داخلی اور خارجہ امور میں کامیاب کارکردگی دکھانے میں دوسرے ممالک کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ جب تک تجربہ کار سیاسی شخصیات ملک کے کلیدی عہدوں کا کمان نہیں سنبھالتے تب تک ہم ہر شعبہ زندگی میں تنزل کا شکار رہیں گے۔

اب بھی وقت ہے کہ ملک و قوم کے بہی خواہ مخلص سیاسی شخصیات اس طرز جمہوریت سے نجات حاصل کرنے کے لیے قدم اٹھائیں اور سیاسی جماعتوں کو موروثی قیادت سے چھڑائیں ورنہ ہم جیسے لوگ فوجی ڈکٹیٹرشپ کو موجودہ جمہوری نظام پر ترجیح دینے میں حق بجانب ہوں گے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی