کریم خان صوبیدار مرحوم

کریم خان مرحوم 
کریم خان 5 جولائی 1951 کو پرکوسپ مستوج کے موژودہ میں میرکریم خان سرنگے کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق زوندرے سرنگے شاخ کے لاچین بیگ ابن سرنگ ثانی کے خاندان سے تھا۔ بچپن سے چلبلے مزاج کا متحرک لڑکا تھا۔  میرے آبائی گھر سے بالکل متصل ان کا گھر تھا تاہم مجھ سے دو ڈھائی سال چھوٹا تھا۔ بچپن میں ہم یارخون کے چارغیری (موجودہ لغل آباد) منتقل ہوگئے۔ اس وجہ سے ہم بچپن کے کھیل کود کے ساتھی نہ رہ سکے۔ 1961 میں جب میں نے مڈل اسکول مستوج میں داخل ہوا تو کریم خان کے ساتھ کھیل کود کا موقع ملا۔وہ پرائمری اسکول پرکوسپ کی پانچویں جماعت میں تھا۔ اسکول کے بعد عصر کے وقت  بکریاں چراگاہ سے واپس لائی جاتیں تو ہم انہیں گھر پہنچانے کے لیے ݰاگل ندی کے دائیں کنارے جمع ہوا کرتے اور چھوٹے موٹے کھیل کھیلا کرتے۔ چونکہ کھیل کا کوئی خاص میدان نہیں تھا تو ہم بمپو غاڑ کے لیے پریماڑی کے سامنے دریا کی گزرگاہ کے کنارے ریتلے میدان میں جایا کرتے ۔ کبھی پٹیک دک کے لیے لوٹ لشٹ جایا کرتے۔ ولی بال کے لیے پرائمری اسکول پرکوسپ کے سامنے رستم خان بھائی کی غیر آباد زمین ہمارا چھوٹا گراؤنڈ کا کام دیتی تھی جہاں دو کھمبے ایستادہ کرکے درمیان میں ڈوری باندھ کر نٹ بناتے اور کپڑے کے چیتھڑوں سے بال بنا کر اوپر ڈوری کس کر والی بال کھیلا کرتے۔ پھر 1962 میں کریم خان، ان کا چچا زاد مرحوم نور اعظم خان اور ہمارے ایک اور بھائی گل زرین خان بھی مڈل اسکول مستوج میں داخل ہوگئے تو موژو دیہہ سے ہم سات بندوں کا قافلہ بن گیا۔ صاحب جان اور مرحوم صوبیدار گل آباد خان مجھ سے ایک کلاس سینئیر تھے ۔
دو سال ہم ساتھ رہے اس کے بعد میں ہائی اسکول چترال میں داخلہ لے لیا۔ اگلے سال کریم خان اور نور اعظم خان نے ہائی اسکول بونی میں داخلہ لیا اور گل زرین نے چترال میں داخلہ لے لیا۔ اس کے بعد میری اور کریم بھائی کی ملاقات گاہے گاہے ہونے لگی کیونکہ میٹرک کے بعد اس نے 1970 میں چترال سکاوٹ جائین کیا۔ ملازمت کے دوران ایک محنتی سپاہی اور ذمے دار جے سی او ریے۔ مختلف عہدوں پر ترقی پاتے ہوئے 1993 میں بحیثیت صوبیدار ملازمت سے پنشن پائی اور خانہ نشین ہوگئے۔ زمینداری میں محنت جاری رکھی۔ بچوں کو اچھی تعلیم دلائی۔ گزشتہ ڈیڑھ دو سالوں کے اندر اسے دمہ کی شکایت تھی۔ اس مرض نے آخرکار ان کی جان لے لی۔ صاحب فراش ہوئے بغیر 6 اور 7جون کی رات انتقال کر گئے اور پورے گاؤں کو سوگوار چھوڑ گئے۔ اللہ پاک انہیں جنت الفردوس نصیب فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین!
کریم بھائی طبیعت کے لحاظ انتہائی شگفتہ مزاج اور ہنس مکھ واقع ہوئے تھے۔ بات بات پر مزاحیہ جملے کسنا اور اونچا قہقہ لگانا ان کے مزاج کا خاصا تھا۔ انتہائی ہردل عزیز شخصیت کے مالک تھے۔ دنیاوی معاملات میں اپنے کام سے کام رکھا کرتے تھے۔ دیہی سیاست اور گروہ بندیوں سے دور رہتے تھے۔ ان کے فرزند کا کہنا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں انہیں غریبوں کی فکر ستائے رکھتی تھی کہ غریب لوگ کیسے جئیں گے ۔
کریم خان بھائی اپنے بھائیوں میں منجھلےتھے۔ بڑے بھائی حاجی دینار خان حوالدار (ر) اور چھوٹے نیت کریم پوسٹ ماسٹر (ر) ہیں۔ کریم خان مرحوم  نے اپنے پیچھے ایک بیوہ اور تین بیٹے چھوڑے ہیں۔ ان کے تینوں فرزندان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور برسر روزگار ہیں۔ آفتاب کریم اور مختار کریم سکول ٹیچر ہیں جب کہ فرحت کریم ٹکنیشین ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

کیچ بِک

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی