اے کے ایچ ایس پی آئی کلینک بونی

پچھلے برس جنوری سے آغاخان ہیلتھ سروسز پاکستان نے ڈاکٹر زبیدہ سرنگ اسیر کی مدد سے گلگت میں امراض چشم کا شفاخانہ کھولا ہے2020 کے وسط میں جب ڈاکٹر موصوفہ آئرلینڈ سے اسپیشلائزیشن مکمل کرکے پاکستان لوٹی تب سے اے کے ایچ ایس پی والے ان سے رابطے میں رہے۔ کلینک کے قیام اور سامان کے متعلق آن لائین مشورے ہوتے رہے تا آنکہ یکم جنوری 2021 کو ڈاکٹر سرنگ نے گلگت آئی کلینک میں علاج معالجے کے آغاز کیا اور آج تک خدمات انجام دے رہی ہے۔ درین اثناء چترال (اپر اور لوئر چترال) کے مرکزی مقام بونی میں بھی آئی کلینک کھولی گئی۔
چونکہ راقم الحروف جملہ پروسیجر سے مکمل طور پر باخبر رہا ہے اس لیے اس بلاگ کے ذریعے چترال کے ان بزرگوں، بہن بھائیوں اور برخورداروں کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں جن کی خواہش ہے کہ چترال کے دونوں اضلاع کے اندر آئی کلینک قائم ہوں تاکہ مریضوں کو سہولت ہو۔ان کی یہ خواہش بالکل معقول ہے البتہ آغا خان ہیلتھ انتظامیہ اور ڈاکٹر زبیدہ سرنگ کے لیے مشکلات درپیش ہیں۔ متعلقہ مشینوں اور سٹاف کے لیے نوٹی رقم چاہیے ہوتی ہے۔
یہ یاد رہے کہ بونی میں آئی کلینک کا قیام اے کے ایچ ایس پی کے پروگرام میں شامل نہیں تھا۔ یہ مطالبہ ہم باپ بیٹی کا تھا جسے اے کے ایچ ایس پی نے نہایت مہربانی کرکے منظور کیا جس کے نتیجے میں بونی میڈیکل سنٹر میں کلینک کھولنے کے لیے اے کے ایچ پی چترال نے عمارت کا انتظام کیا۔ پچھلے سال سے ڈاکٹر سرنگ نے کم و بیش تین دفعہ دو دو ہفتوں کے لیے کلینک کیا۔ بونی میں جو کلینک کھولی گئی ہے اس میں مطلوبہ مشینیں اور سٹاف نہیں ہیں اس لیے ہر دفعہ مشینیں اور سٹاف گلگت سے لانے پڑتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس طرح سٹاف اور مشینوں کی نقل و حمل میں اے کے ایچ ایس پی کو زائد مالی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے نیز ڈاکٹر اور سٹاف کو ہر دوسرے مہینے لمبے سفر کی مشکلات سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

میری اور میری بیٹی ڈاکٹر سرنگ اسیر  اور عوام کی شدید خواہش ہے کہ چترال کے بونی اور چترال خاص میں مستقل آئی کلینک قائم ہوں تاکہ ہمارے چترال کے باسیوں کو سہولت حاصل ہو۔ میں اہل چترال کی طرف سے اے کے ایچ ایس پی منیجمنٹ سے گزارش کروں گا کہ ان دو جگہوں میں آنکھوں کے علاج معالجے کے لیے مطلوبہ ضروری مشینیں اور سٹاف مہیا کرنے کے سلسلے میں کام کو آگے بڑھائیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ آغا خان میڈیکل سنٹر بونی میں مستقل بنیاد پر ائی سپیشلسٹ ڈاکٹر کی تعیناتی ہونی چاہیے۔ 

اس سلسلے میں جب ڈاکٹر زبیدہ سے بات ہوئی تو اس نے بتایا کہ " موبائیل آئی کلینک" کے لیے فنڈنگ کا اہتمام کرنے  کے لیے کسی مہربان ڈونر نے حامی بھری ہے۔ امید ہے سال رواں کے آخر تک موبائل کلینک کی سہولت میسر آ جائے گی۔ اگر موبائل کلینک کا انتظام ہوگیا تو گلگت بلتستان اور چترال کے دور دراز وادیوں میں ضرورت مند افراد کے لیے قریب ترین معائنہ اور جراحی کی سہولت میسر آ جائے گی، انشاء اللہ!

Comments

Popular posts from this blog

تروئے ژندار

اوھرکن گولو اژدار

قائد کے مزار پر