Posts

باران رحمت کی زحمت

ان دنوں مستوج، لاسپور، یارخون اور موڑکھو اور تورکھو کے بالائی علاقوں میں خوبانیوں کی بہار ہوتی ہے جب خوبانی کے پھول کھلتے ہیں جسے ہم کھوار میں ژوڑسپرو کہتے ہیں۔ خوبانی کے پھولوں کے گرنے تک بارش خوبانی کے پھلوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوتی ہے۔ پھل بہت کم لگتے ہیں اور زمیندار کو بڑا خسارہ ہوتا ہے۔ وادئ یارخون میں گزشتہ 72 گھنٹوں سے مسلسل بارش برس رہی ہے اور موسم بھی کافی سے زیادہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ آج رات تھوڑی برف بھی پڑی۔ خطرہ ہے کہ خوبانیوں کے پھل لگنے کا عمل بری طرح متاثرہوا ہے۔ امسال خوبانی کے پھلوں سے محروم رہ جانے کا حدشہ ہے ۔  گزشتہ تین چار سالوں سے ہم خوبانیوں سے کوئی فایدہ نہیں اٹھا پا رہے ہیں۔ کبھی بے وقت کی بارشوں کی وجہ سے پھول اور ننھے پھل گر جاتے ہیں اور کبھی غیر متوقع موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خوبانی کے پھل پکنے کے عمل کے دوران سڑنے لگتے ہیں۔ محکمہء زراعت بھی اس سلسلے کوئی تحقیق نہیں کی کہ خوبانی اور سیب کے پھلوں کے سڑنے کی وجہ کیا ہے؟ مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ جو کچھ نقصان ہم اٹھا رہے ہیں یہ ہماری ناشکریوں کے سبب سے ہے۔ ہم اپنے پھلوں کی قدر نہیں کرتے اور اللہ کی ان بہتری

زندہ پیر کے مزار پر

Image
حضرت محمد رضائے ولی علیہ رحمۃ چترال کے بہت بڑی روحانی ہستی گزرے ہیں۔ وہ ان گنے چنے اولیاء میں سے ہیں جن کے مزارات مرجع خلائق ہیں ۔ ان کی زیارت پر حاضری کا شوق عرصے سے دل میں موجزن تھا۔ اسی نیت سے 8 اکتوبر بروز اتوار  سنوغور پہنچا۔ ایک عرصے بعد اپنے اجداد کی سرزمین پر قدم رکھنے کا موقع ملا۔ 7 اکتوبر کے سہ پہر بونی سے برخوردارم رحمت علی خان اے ڈی ای او نے اپنی گاڑی میں مجھے میراگرام نمبر 2 پہنچایا جہاں ریٹائرڈ اے سی برخوردارم اسرار احمد اور میکی نور سے ملاقات کے بعد صوبیدار میجر (ر) گلاب نظارہ کے گھر تعزیت کے لیے پہنچا۔ چند روز پہلے ان کے برادر کلان صوبیدار (ر) نور فراز خان کا انتقال ہوا تھا۔ اچھا ہوا کہ کائے محترمہ بیوہ دینار ولی تاج آف پاسم (ہمشیرہ متوفی) بھی موجود تھیں۔ فاتحہ خوانی کے بعد ایک ایک کپ چائے پی۔ پھر محترم چارویلو میکی (اسرار احمد کے سسر) کو سلام کے لیے حاضر ہوئے۔ چارویلو میکی اس وقت 93 برس کے ہو چکے ہیں۔ بفضل خدا پوری طرح ہوش و حواس میں ہیں۔ ان کے ساتھ ماضی میں کئی نشستیں نصیب ہوئی تھیں۔ ان کے ساتھ مختصر گفتگو کے بعد رخصت لی کیونکہ وقت شام ہونے کو چلا تھا۔ رات

شرط بزرگی

بعض لوگوں کا خیال ہے کہ عمر کے بڑھنے سے انسان عقلمند ہوتا ہے۔ اس خام خیالی میں عقل کے پیادے اپنی عمر کی درازی کو دلیل بنا کر کہتے ہیں کہ " میری عمر پچاس ساٹھ سال ہے۔ میں بچہ نہیں رہا ۔ میں عقلمند ہوں" یہ احنقانہ دلیل ہے کیونکہ عقل کا تعلق بڑھاپا سے نہیں ہوتا جیسا کہ شیخ سعدی علیہ رحمۃ کا کہنا ہے،   توانگری بہ دل است نہ بہ مال بزرگی بہ عقل است نہ بہ سال  لہذا نہ عقلمندی کا تعلق بڑی عمر سے  ہوتا ہے اور نہ مالداری کے سبب سے کوئی شخص دولتمند کہلا سکتا ہے۔ چھوٹی عمر کا فرد بھی بھی اپنی عقلمندی کی وجہ سے بزرگی کا مقام پا سکتا ہے جس ایک طرح غریب آدمی اپنی سخاوت کی بدولت دولت مند کہلانے کا حقدار ہوتا ہے۔

کریم خان صوبیدار مرحوم

کریم خان مرحوم  کریم خان 5 جولائی 1951 کو پرکوسپ مستوج کے موژودہ میں میرکریم خان سرنگے کے ہاں آنکھ کھولی۔ ان کا تعلق زوندرے سرنگے شاخ کے لاچین بیگ ابن سرنگ ثانی کے خاندان سے تھا۔ بچپن سے چلبلے مزاج کا متحرک لڑکا تھا۔  میرے آبائی گھر سے بالکل متصل ان کا گھر تھا تاہم مجھ سے دو ڈھائی سال چھوٹا تھا۔ بچپن میں ہم یارخون کے چارغیری (موجودہ لغل آباد) منتقل ہوگئے۔ اس وجہ سے ہم بچپن کے کھیل کود کے ساتھی نہ رہ سکے۔ 1961 میں جب میں نے مڈل اسکول مستوج میں داخل ہوا تو کریم خان کے ساتھ کھیل کود کا موقع ملا۔وہ پرائمری اسکول پرکوسپ کی پانچویں جماعت میں تھا۔ اسکول کے بعد عصر کے وقت  بکریاں چراگاہ سے واپس لائی جاتیں تو ہم انہیں گھر پہنچانے کے لیے ݰاگل ندی کے دائیں کنارے جمع ہوا کرتے اور چھوٹے موٹے کھیل کھیلا کرتے۔ چونکہ کھیل کا کوئی خاص میدان نہیں تھا تو ہم بمپو غاڑ کے لیے پریماڑی کے سامنے دریا کی گزرگاہ کے کنارے ریتلے میدان میں جایا کرتے ۔ کبھی پٹیک دک کے لیے لوٹ لشٹ جایا کرتے۔ ولی بال کے لیے پرائمری اسکول پرکوسپ کے سامنے رستم خان بھائی کی غیر آباد زمین ہمارا چھوٹا گراؤنڈ کا کام دیتی تھی جہاں دو کھمبے ا

آذربائجان ۔۔۔۔11

Image
 نقوش : گوبستان یا قوبستان میں واقع قدیم انسانوں کے چھوڑے ہوئے نشانات دیکھنے مجھے اکیلے جانا پڑا کیونکہ بیگم صاحبہ کو اس قسم کی فرسودہ چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ڈاکٹر زوبی کو اپنی ماں کے ساتھ ٹھہرنا پڑا۔ میں سیاحوں کی ٹولی کے ساتھ ایک کمپنی کی گاڑی میں ایک باتونی گائیڈ کی رہنمائی میں صبح 9 بجے باکو شہر سے روانہ ہوا۔ سیاحوں کی یہ ٹولی چھ بندوں پر مشتمل تھی۔ ایک انگریز مرد اور خاتون کی جوڑی اور دو پاکستانی میاں بیوی جن کی گود میں ایک شیر خوار بچی تھی۔ گائیڈ اور ڈرائیور ملا کر کل اٹھ افراد بن گئے گو کہ گاڑی کافی بڑی تھی ۔ اس موسم میں یہاں سیاح کم ہوتے ہیں۔ باکو شہر سے روانہ ہوتے ہی ہمارا قوی الحبثہ، کوہ نما ناک والا سیاحتی رہنما نے بولنا شروع کر دیا۔ اس کی انگریزی اچھی تھی لیکن بولنے کی رفتار اتنی تیز تھی کہ نصف سے زیادہ باتیں سمجھ میں نہیں آئیں۔ اس لیے اس کو سننے کی بجائے میں نے ارد گرد علاقوں کو دیکھنا  مناسب سمجھا تاکہ علاقے کا نقشہ ذہن میں محفوظ ہو۔  جب مجھے کچھ پوچھنے کی ضروت پڑی تب اس بندے کی طرف دیکھنے کی زحمت کی۔ باکو سے شمال مغرب کی طرف سفر

بومکی کھوار پیڅھونو بوین

 بومکی ای ژاغو سفن سار پرانو رویَنتے یا قَمَنتے ریر۔ ہیہ را آوا وارو بچے استعمال ارتم۔ صہی کی نو سریتائے متے لُو دیور۔ اصلی کھواروت اسپہ بومکی کھوار کی ریتم کیہ غلط نو بوئے۔ موجودہ کھوار بو آموشتہ بتی شیر۔ فارسی اوچے عرابی ار علاوہ ترکی، ہندی،سنسکرت پروشٹی تن ہیہ را شامل اوشونی۔ ہنیسے اردو، انگریزی ، اڑغانی وارو لوظ دی کھوارو حصہ بتی شینی۔ بِتی نو بِتی اسپہ کھوار لو دیاوا یا نویشاوا خور زبانوں لوظن شامل کوراو انگوسِیَن۔ ہیسو جُستہ اسپہ کھوارو اصلی لوظن پیڅھاو دی گوسِیَن۔  ہیہ اسکوردی مضمونہ آوا رشتان نامَن بارا مشقول بوسی کی ہتیت پیڅھونو بتی شینی یا پیڅھونو بکو بِتی شینی۔ نن/ نان: کھوارو ہیہ ژَنو سار شیرین لوظ روخڅونو بکو تاب۔ اسپہ ای کما زاروان کی دنیار بغاتم وا کا نن نو رینی ہمو ژاغو ممی، مم، امی، نانی گانی شینی۔ دادی، ۔ اسپہ نوغ نسلو اژیلی، نن گِنی تت گنی نن، تت ریکو تان سو  اسپوک جاݰُنِیَن۔ تَت/ تات: تتو ژاغو دادا، پاپا، بابا ڈیڈی گَنی شینی۔ بو کم کا تت رینیَن۔ واو، بپ: ہمی قدیمی لوظ افگار زارو غریب واو اوچے بپو بچے استعمال بونیَن۔ ریاستی دورہ ہمتن ژاغا واویو چے بابا انگیونو بتی او

موروثی سیاسی قیادت

 ملکِ عزیز میں جمہوریت کے نام پر جو وراثتی سیاسی نظام چل رہا ہے یہ تشویشناک حد تک جمہور دشمن  ہے۔ یہ ایک بدبودار گلا سڑاطرز حکومت ہے  جسے جمہوریت کا نام دینا لوگوں کو بے وقوف بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہمیں ملک کی سیاسی جماعتوں کے اندر موجود ان بانی تجربے کار سیاست دانوں پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ وہ آنکھیں بند کرکے چند خاندانوں کی نا اہل اولاد کو اپنی پارٹیوں کے سربراہ کے طور پر قبول کیے ہوئے ہیں۔  جمہوریت میں سب سے پہلے سیاسی پارٹی جمہوری ہونی چاہیے جو مقررہ وقت پر صاف ستھرے چناو کے ذریعے پارٹی سربراہ اور معتمد خاص منتخب کرے اور جس کے کابینہ ممبران کو مشاورت اور فیصلوں کا مساوی حق حاصل ہو۔ پارٹی اور اس کے فیصلوں پر فرد واحد کی اجارہ داری نہ ہو۔  گاؤں کی سطح سے لے کر مرکز تک ہر سیاسی جماعت کی قیادت منتخب رہنماؤں کے ہاتھوں میں ہو تب وہ جمہوری پارٹی کہلائے گی۔ بدقسمتی یا اپنے عوام کی جہالت کا نتیجہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی پارٹیوں کی سربراہی وراثت کے طور پر منتقل ہوتی رہی ہے۔ پارٹی کا سربراہ  پارٹی میں سیاہ و سفید کا مالک ہوتا ہے۔ سارے فیصلے ایک آدمی کرتا ہے چاہے وہ سیاسی میدان میں اناڑی