وادئ ہنزہ کی ‏ایک ‏جھلک۔۔5

وادئ ہنزہ کی ایک جھلک۔۔۔5
بلتت اور التت کے قلعے   
میران ہنزہ کے بارے میں بہت کچھ سنتے رہے ہیں۔ ان کا اسماعیلی مذہب کے حوالے سے بھی بڑا نام ہے جب کہ گلگت بلتستان کی سیاست میں بھی پیشرووں میں آتے ہیں۔ انکو وراثت میں جو قدیم قلعے ملے تھے ان کے بارے میں ہمارا علم صفر تھا۔ جب آغا خان نٹ ورک کے ادارہ تحفظ ثقافت نے ان قلعوں کی بحالی کا ذمہ اٹھا کر انہیں پھر سے اصلی حالت میں بحال کیا تو ان کی شہرت ہم تک پہنچی۔ 1996 میں شیعہ امامی اسمعیلی مسلمانوں کے روحانی پیشوا ہزہائنس پرنس کریم آغا خان چہارم نے صدر پاکستان فاروق احمد لغاری کو ساتھ لے کر اس کا افتتاح فرمایا تھا۔

پرانی چیزوں کو دیکھنے کا شوق مجھے ہمیشہ اس قسم کی تاریخی عمارتوں کی طرف کھینچتا رہا ہے۔ جس دن ہنزہ وادی کی سیر کا موقع ملا تھا اس وقت میرے ساتھ میرے گھر کے افراد کی ایک ٹولی تھی اور ڈرائیور ( برخوردارم صاحب کریم خان) پہاڑی علاقوں میں نیا نیا گاڑی چلا رہا تھا نیز گاڑی بھی نئی تھی۔ اس لیے بلتت قلعے کی چڑھائی چڑھنے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔وقت کی کمی بھی ایک وجہ تھی۔ 29 اور 30 اگست کی سیر سے جب واپس گلگت پہنچا تو برخورد عزیزم شمس الحق قمر نے میرے شوق دید کو اور بھی بڑھاوا دیا۔  مشورہ بھی دیا کہ نوجوان نیرعلی شمس کی رہنمائی میں بلتت اور التت کے قلعے دیکھنے جاؤں۔ اپنی منی پجیرو گاڑی لے جانے کو کہا کیونکہ سڑک کی مناسبت سے ان کی یہ گاڑی موزون تھی۔
نیر علی شمس اپنے بابا شمس الحق قمر کی طرح تابعدار، خدمتگار، خوش مزاج بچہ ہے۔  ایک بہترین ٹورسٹ گائیڈ اور چابکدست ڈرائیور بھی ہے۔ موسیقی کا دلدادہ، ابھرتا ہوئا ربابی، ستھاری اور بانسری نواز ہونا اس کے اضافی قابلیت میں شامل ہے۔ نیر شمس کے ساتھ میں ایک مرتبہ پھر ہنزہ پہنچ گیا۔ علی آباد سے چڑھائی چڑھتے ہم کریم آباد کے پرانے گاؤں میں داخل ہوئے جو قدیم زمانے میں ریاست ہنزہ کا صدر مقام تھا۔ گاؤں کے مشرق میں جب تین موڑ مڑتے ہوئے ٹیلے کے اوپر پہنچے تو سامنے کریم آباد نے زبردست دلکش نظارہ پیش کیا۔ تینوں اطراف سے ڈھلانوں پر گھنے درختوں اور مکانات سے ڈھکا ہوا، درمیاں سے ہموار ایک وسیع نشیبی گاوں میرا مرکز  نگاہ رہا۔ دل ہی دل میں کہا، " کریم آباد دیکھے بغیر ہنزہ کی سیر ہر لحاظ سے نامکمل ہوتی". بلتیت قلعے کو جانے والی  تھوڑی تنگ سڑک کی دونوں جانب چھوٹی بڑی دکانیں سجی تھیں۔ جگہ جگہ ہوٹل اور ریستوران کاروبار میں مصروف تھے۔ سڑک کے کنارے کہیں کہیں نشست گاہیں بنائی گئی تھیں جہاں تھکا ہوا آدمی تھوڑا آرام کرسکتا ہے۔ سڑک تنگ تھی۔ دو گاڑیاں ایک ساتھ نہیں گزر سکتی تھیں اس لیے نیر کو جگہ جگہ بریک پر کھڑا ہونا پڑتا تھا جو ڈرائیونگ کے اصولوں کے مطابق خطرناک سمجھا جاتا ہے۔ نیر کو مجبوراََ بریک لگانا پڑتا تھا کیونکہ اترائی اترنے والوں میں سائیڈ دینے کی تمیز نہ تھی۔جب ہماری گاڑی ایک پارکنگ کی جگہ پہنچی تو آگے جانے سے منع کیا گیا۔ بتایا گیا کہ یہاں سے آگے پیدل جانا ہوگا۔ نیر ضد کر رہا تھا کی تھوڑا اور گاڑی آگے لے کےجائیں لیکن میں نے منع کیا کیونکہ چڑھائی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور میرا حوصلہ پست سے پست تر کی طرف گامزن تھا۔ یہ سڑک اتنی ڈراؤنی نہیں تھی جتنی ہمارے چترال کے لوٹ اویر، زئینی اور کھوت کی سڑکیں ہیں جن پر درجنوں دفعہ میں نے سفر کیا تھا اور جو کچی بھی تھیں جب کہ بلتت کو جانے والی یہ سڑک پکی ہے۔ شاید جوانی کی ہمت تھی جو چترال کی خطرناک سڑکوں پر بے دھڑک سفر کیا کرتے تھے۔ بڑھاپے کے ساتھ ہمت بھی جواب دے جاتی ہے۔
یہاں سے قلعے تک کی سڑک بہت زیادہ ڈھلان تھی اس لیے چڑھنے کے لیے اچھی خاصی توانائی کی ضرورت تھی ۔گرمی بھی شدت کی محسوس ہو رہی تھی۔  دن کے گیارہ بج چکے تھے۔ سورج نصف النہار پر آگیا تھا اور آگ برسا رہا تھا۔نصف چڑھائی طے کرنے کے بعد سڑک کے کنارے دو چار جوانوں کو بیٹھے دیکھا جو پتھر کی سیڑھیوں پر بیٹھے محو گفتگو تھے۔ سامنے مقامی میوں کی جوس کی دکان کی تختی لگی تھی۔ ہم نے علیک سلیک کرکے ان سے یہاں کے قدیم عام مکانات کی موجودگی کے بارے پوچھا تو ساتھ ہی مکان کا ایک حصہ دکھایا گیا جس کا رنگ کالا تھا۔ پرانا لگ رہا تھا۔ اسی اثنا میں ایک جوان نے مجھے پہچان لیا۔ وہ مجھے اس وقت جانتا تھا جب وہ ایبٹ آباد میں پڑھ رہا تھا۔ ہمیں زبردستی بٹھا کر خوبانی کا جوس پلایا اور گھر  چلنے پر پرخلوص انداز میں بہت اصرار کیا۔ ہم نے دعاؤں کے ساتھ معذزرت کرلی۔ ایک دوسرا بچہ نیر کے والد شمس کا شاگرد نکلا۔ یہ دونوں جوان گریجویٹ تھے اور کریم آباد کے وزیر خاندان  سے تعلق رکھتے ہیں۔ ایک جرمن شیفرڈ کتا بھی ان کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بڑا پیارا سا کتا تھا۔نیر نے دو چار فوٹو سیشن بھی کیا اس کے ساتھ۔
جب قلعہ پہنچے تو سامنے ٹکٹ گھر نظر ایا۔ یہ میر آف ہنزہ کے وزیر تھرا بیگ کا قدیم مکان تھا جسے اس وقت استقبالیہ اور ٹکٹ گھر کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ گھر میری دلچسپی کا نکلا کیونکہ یہ ہوبہو "کھوار ختان " کی طرح تھا البتہ پانج ستونوں کی بجائے چار منقش ستنوں پر قائم یہ روایتی گھر چترال کا روایتی گھر ہی تھا۔ فرش پر روایتی قالین بچھائے گئے تھے جو چترال کے "پیلسک" ہی تھے۔ دیوار میں تین طاق بھی موجود تھے۔ بیٹھنے کے لیے صوفہ سٹین جدید تھیں اور ٹکٹ کلرک کا ڈسک اور بس۔ باقی تمام ناک نقشہ قدیم چترالی کمرے کا تھا جسے ہم بائپݰ ختان بولتے ہیں۔
کوئی دس منٹ ہمیں گائیڈ کے آنے کا انتظار کرنا پڑا۔ کوئی چودہ پندرہ سیاح مردو خواتین جمع ہوگئے تو گائیڈ بھی نازل ہوا تو دیکھا کہ وہ بندہ کہیں مجھے ملا تھا کیونکہ اس کی داڑھی اور مونچھیں کیسے بھول سکتا تھا جہاں پورے چہرے پر ایک آدھ انچ صاف جگہ نظر آ رہی تھی۔ لمبی بٹی ہوئی مونچھیں کانوں کے پیچھے لگائی گئی تھیں جب کہ داڑھی کو ٹھوڑی پر قدم رکھنے سے روک دیا گیا تھا۔ سیاح قلعے کی بجائے گائیڈ کو دیکھے جا رہے تھے۔
قلعے کے اردگرد قدیم مکانات کہیں کہیں موجود تھے۔  لگ رہا تھا کہ لوگ نئے مکانات بنانا بھی شروع کیا ہے جو دو دو تین تین منزلہ ہوں گے تاکہ بڑھتی آبادی کو رہائش گاہیں میسر ہوں۔ قلعے کے بیرونی صحن سے کریم آباد کا نظارہ مسحور کن تھا۔
ہم نے مذکور گائیڈ کی رہنمائی میں قلعے کے سارے حصوں کو دیکھا جس میں تین روایتی منقش دروازوں اور ستنوں والے روایتی کمرے ہیں۔ جن میں ایک میر کا کمرہ، دوسرا دیوان خاص اور تیسرا باورچی خانہ ( کھوار میں رتھینی) کے طور پر استعمال ہوا کرتا تھا۔اس کمرے میں پتھر کے دیگ اور دیگچیاں اور لکڑی کے برتن نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ تمام کمروں کے فرشوں پر روایتی قالینیں ( پیلسک) ںچھائے گئے ہیں۔ دیوان خاص کی دیواروں پر آغاخان آول سے کے کر آغا خان چہارم پرنس شاہ کریم اور میران ہنزہ کی تصویریں آویزاں ہیں۔ اس زمانے کی چند ایک تلواریں، ڈھال ، کمانیں اور بندوقیں نمائش کے لیے رکھی گئی ہیں۔ ایک اور کمرے میں غلہ اور آٹا محفوظ کرنے کے چوبی صندوق رکھے گئے ہیں جن میں لوہے کی کیلیں استعمال نہیں ہوئی ہیں۔
قلعہ کی دیواریں رف پتھر، گارے اور لکڑی کے بنے ہیں۔ فرسودہ حصوں کو اصلی شکل و صورت میں بحال کیا گیا ہے۔ قلعے کے سارے دروازے پانج فٹ سے زیادہ اونچے نہیں ہیں۔ اس لیے اپنے سروں کا خیال رکھنا بہت ضروری ہے ورنہ ٹکرانے کی صورت میں سابق یاداشت بھی بھول جانے کا امکان ہے۔ سیاحوں کو ہر دروازے پر جلی حروف میں اس بارے متنبہ کیا گیا ہے۔
یہاں پر ایک سیاح کو علاقے کی قدیم تاریخ کی اصلی جھلکیاں ملتی ہیں۔ آغاخان کلچرل سروسز اور ڈونر ممالک کا یہاں کے عوام پر بڑا احسان ہے کہ انہوں نے علاقے کی ہزار سالہ ورثے کو پھر سے زندہ کیا ہے اور ماضی کو حال کے ساتھ مربوط کرکے موجودہ نسل کو اپنی ثقافت سے آگاہ رکھا ہے۔ اس قدیم علاقائی ورثے کو دیکھنے ہر سال لاکھوں سیاح علاقے کا رح کرتے ہیں اور اس وادی کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالتے ہیں۔
التیت کا قلعہ بلتت کے مشرق میں دریائے ہنزہ کے کنارے ایک پہاڑی پر واقع ہے۔ یہ پہاڑی دریائے ہنزہ کے کنارے سے ایک دیوہیکل دیوار کی طرح عمودی کھڑی ہے اور قلعے کی مشرقی دیوار اس کے اوپر اس طرح اٹھائی گئی ہے کہ وہ بھی پہاڑی کا ایک حصہ لگتی ہے۔ اسے دیکھ کر عقل حیران رہ جاتی ہے کہ بغیر سمینٹ اور سریا کے محض گارے اور پتھروں سے اتنی اونچائی پر اتنی مضبوط دیوار کس طرح بنائی گئی ہوگی۔ اس عمارت کے مستریوں کی ہمت اور ہنرمندی کو داد نہ دینا بڑا بخل ہوگا۔ میں یہاں نیچے دیکھنے کی ہمت ہی نہیں کی۔ ہمیں بتایا گیا کہ سزا پانے والے لوگوں کو یہاں سے نیچے پھینکا جاتا تھا۔ قلعے کی دیوار سے کوئی دس فٹ کے فاصلے پر چٹان کی تین چار فٹ قطر کی ایک شاخ مینار کی طرح کھڑی ہے۔ ایک مجرم کو قلعے کی دیوار کے کنارے سے اس پر چھلانگ لگانے کا حکم دیا جاتا اور جو خوش قسمت اس پہاڑی ستون کے پر چھلانگ لگا پاتا اور گرنے سے بچ جاتا تو اس کی جان بخشی ہوجاتی تھی۔ مجھے یہ ممکن نظر نہیں آ رہا تھا کیونکہ نہ اس ستون کا اوپر والا حصہ ہموار ہے اور نہ ہاتھ پیر جمانے کے لیے کوئی گنجائش موجود ہے۔ اس ظالمانہ سزا کا تصور بدن میں جھرجھری پیدا کرنے کے لیے کافی ہے۔
التیت کا یہ قلعہ بلتت سے پرانا ہے اور اس کے اندر کے کمرے بلتیت قلعے کے کمروں جیسے ہیں۔ یہاں قلعے کے وسطی حصے پر ایک واچ ٹاور موجود ہے جو بلتیت میں نہیں ہے۔ اس قلعے کے اندر بھی قدیم  ثقافت کی جھلکیاں بلیک اینڈ وائٹ تصویروں کی صورت میں محفوظ ہیں۔ قلعے کے سامنے ایک پرانا باغ بھی ہے جس کے ساتھ ہوٹل بھی قائم کیا گیا ہے۔ ہوٹل کی عمارت کے سامنے سوئمنگ پول بھی ہے۔ اس قلعے کو دیکھنے اور معلومات حاصل کرنے میں شیر اللہ بیگ صاحب نے ہماری رہنمائی کی۔ بیگ صاحب آغا خان ہائیر سکینڈری اسکول کریم آباد میں اسلامیات کے استاد ہیں اور بڑی دلآویز شخصیت کے مالک ہیں۔ ( جاری ہے)

Comments

Popular posts from this blog

باران رحمت کی زحمت

شرط بزرگی

چترال کی چلتی پھرتی تاریخ